flipkart search bar

Wednesday, March 14, 2018

عذاب قبر کوئی چیز نہیں ہے अजाबे कबर कोई चीज नहीं है

 عذا ب قبر-قرآن میں عذاب قبر کے ذیل میں کیا درج ہے ؟پیش ہے
  हिंदी में उर्दू के बाद दिया गया है
سورۃ بقرہ(۲) آیت۲۸۔ تم اللہ کی ہستی کاا نکار کس طرح کر سکتے ہو، جب کہ تم خود ہی آپ اس 
ہستی کی ایک دلیل ہو جس کا انکار تم کر ہی نہیں سکتے ، ایک وقت وہ تھا جب تم موجود نہیں تھے (یعنی مردہ) پھر اس نے اپنے قانون کے مطابق تمہیں زندگی عطا کی ، پھر تمہیں موت دے گا۔پھر تم اعمال کی جواب دیہی کے لئے اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے، یعنی زندہ کئے جاؤ گے۔
* سورۃ مومن(۴۰) آیت ۱۱۔ کہیں گے اے ہمارے پروردگار ! تونے ہمیں دو مرتبہ موت کی حالت میں رکھا ، اور دو مرتبہ زندہ کیا ۔ آج ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں ، تو کیا اب دوزخ سے نکلنے کی کوئی راہ ہے؟
* سورۃ دخان(۴۴) آیت ۵۵:۵۶۔ وہاں اطمینان سے ہر طرح کے میوے طلب کریں گے ، اور دنیا کی پہلی موت کے بعد موت کا مزانہیں چکھیں گے ، اللہ ان کو دوزخ کے عذاب سے بچائے گا۔
قبر کے عذاب کو ثابت کرنے کے لئے سورۃ مومن کی آیت ۴۶ کا اس طرح ترجمہ کیا جاتا ہے ’’آگ ہے جس کے سامنے یہ صبح شام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی(فرمان ہوگا کہ) فرعونیوں کو سخت عذاب میں ڈالو۔‘‘
اس آیت کے اس طرح ترجمہ کرنے سے قبر کا عذاب ثابت کر نے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ اس ترجمے سے تین زندگیاں اور تین موتیں ثابت ہو رہی ہیں ۔ جبکہ سورۃ بقرہ، سورۃ مومن اور سورۃ دخان کی محکم آیات سے زندگی اور موت دوبار ثابت ہوتی ہیں ، اس طرح یہاں یہ تضاد پیدا کیا گیا ہے ۔ جب کہ اللہ کے کلام میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اب محکم آیت کے تحت سورۃ مومن کی آیت ۴۶کا مفہوم درج ذیل ہے:
’’یعنی جو فرعونیوں کے نقش قدم پر چلیں گے ان کے لئے اپنے گناہوں کے سبب اس دنیا میں کسی وقت قرار نہیں آتا ، گویا ہر وقت صبح شام آتش دوزخ کے سامنے پیش ہوتے رہتے ہیں ، ذہنی پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں ۔ فرعونیوں سے مراد نافرمان لوگوں سے ہے ۔ جو آدمی نافرمان ہوتا ہے اس کی زندگی دنیا میں کبھی سکون سے نہیں رہتی۔جو وہ گناہ کرتا ہے وہ گناہ ہر وقت اس کے ذہن میں رہتا ہے اور وہ گناہ ہر وقت سانپ بچھو کی طرح اس کے ڈنک مارتے رہتے ہیں۔ اور ذہنی پریشانی آگ اس کو ہر وقت جلاتی رہتی ہے۔ مگر شیطان اس کو ، اس کی نافرمانیوں کو اچھا کر کے دکھاتاہے۔ اس لئے ان کو نہیں چھوڑتا، مگر جب بھی وہ فرصت میں غور کرتا ہے تو ان گناہوں کی سزا سے لرز ضرور جاتا ہے، اور اتنا پریشان ہوتا ہے گویا اس کو سانپ بچھو ڈنک مار رہے ہیں۔مگر اس کے دل پر مہر لگ چکی ہوتی ہے، اس لئے گناہوں سے توبہ نہیں کرتا ، اورانجام کار دوزخ کا حقدار بن جاتا ہے، روز دیکھنے میں آتا ہے کہ جو نافرمان ہوتے ہیں وہ ہر وقت خوف کی وجہ سے بڑی حفاظت میں رہتے ہیں، لیکن قتل ہوتے رہتے ہیں ، کبھی بھی سکون نصیب نہیں ہوتا، یہ ہے صبح شام دوزخ کے سامنے پیش ہونا۔ان لوگوں پر ہر وقت اللہ کی لعنت ہوتی رہتی ہے۔ 
انسان جب مر جاتا ہے تو مرنے کے بعد اس کی روح کہاں رہتی ہے ؟قرآن کے مطابق دیکھا جائے:
* سورۃ المومنون(۲۳) آیت۹۹۔ یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے گی تو کہے گا کہ اے میرے رب! مجھے پھر دنیا میں واپس کر دے۔
سورۃ مومنون۔ آیت۱۰۰۔ (اس دنیا میں ) جسے میں چھوڑ آیا ہوں شاید (اس مرتبہ) میں نیک کام کروں ۔ حکم ہوگا، ہرگز نہیں ! یہ تو ایک بات ہے جو وہ بک رہا ہے ، وہ ہرگز واپس نہ ہوگا۔ اب ان سب (مرنے والوں کے) پیچھے ایک برزخ (آڑ) ہے ، دوبارہ اٹھائے جانے کے دن تک۔
یہ ہے قرآن کاحکم کہ جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کا ٹھکانہ قیامت تک برزخ میں ہے، جو ایک پردہ ہے اور دوبار زندگی اور دوبار موت ۔اس لئے عذاب قبر کا عقیدہ غلط ہے اگر عذاب قبر کو صحیح مان لیا جائے جس میں لکھا ہے کہ قبر میں مردے کو زندہ کیا جاتا ہے اور اس کو عذاب دینے کے لئے فرشتہ مقرر کر دئے جاتے ہیں جو اٹھنے کے دن تک اس کو عذاب دیتے رہتے ہیں ، تو اس طرح تین زندگیاں ہو جاتی ہیں ، اور قرآن دو زندگی بتا رہا ہے، اس طرح دوزندگی اور تین زندگی میں تضاد ہو گیا، جبکہ قرآن میں تضاد نہیں ہے۔ اس لئے قبر میں کوئی عذاب نہیں ہوگا۔ مرنے کے بعد روح برزخ میں رہتی ہے۔ اور جب صور پھونکا جائے گا، تو سب ارواح جسم کے ساتھ حشر میں حساب کے لئے جمع ہو جائیں گی ، جس کا قرآن شاہد ہے:
* سورۃ یونس(۱۰) آیت ۳۴۔ ان سے پوچھو ! کیا تمہارے شریکوں میں کوئی ایسابھی ہے ، جو پہلی بار مخلوق کو پیدا کرے ، پھر اس کو دوبارہ بنائے ؟ کہدو!اللہ ہی ہے جو پہلی بار پیداکرتا ہے ،اور وہی ہے جو پھر پیدا کرے گا، پھر تم کہاں بہکے جارہے ہو؟
* سورۃ طحہٰ(۲۰) آیت۵۵۔ اسی زمین کی مٹی سے ہم نے (تمہارے ماں باپ آدم و حوا کو)تم کوپیدا کیا اور اسی میں تم کو لوٹادیتے ہیں ، اسی مٹی سے تم کو دوبارہ زندہ کر کے نکالیں گے۔
* سورۃ المومنون(۲۳) آیت ۱۵۔ پھر اس کے بعد تم کو ضرور مرنا ہے۔ 
سورۃ مومنون۔ آیت ۱۶۔ پھر قیامت کے دن یقیناً تم اٹھائے جاؤ گے۔
* سورۃ الجاثیہ(۴۵) آیت ۲۶۔ کہدو!اللہ ہی تم کو جان بخشتا ہے ،پھر وہی تم کو موت دیتا ہے ، پھر تم قیامت کے روز جس (کے آنے )میں کچھ شک نہیں، وہ تم کو جمع کرے گا، لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے۔
اس بارے میں ایک اور دلیل لکھی جا رہی ہے ، جس پر غور کرناضروری ہے عذاب قبر کے نہ ہونے کے لئے،وہ یہ کہ ایک گناہگار آدمی دنیا کے شروع میں انتقال کر گیا تو موجودہ عقیدہ کے مطابق اس پر عذاب قبرشروع ہو گیا، اور ایک گناہگار جب مرے گا جب قیامت کادن ہوگا ، تو اس پر عذاب قبر نہیں ہو سکے گا، کیونکہ وہ دفنایا بھی نہ جا سکے گا۔یہ بات غور و فکر کے لئے لکھی جارہی ہے کہ ایک شخص پر لاکھوں سال عذاب قبر اور ایک شخص پر ایک دن بھی نہیں ، کیا اللہ اتناہی بے انصاف ہے؟ (نعوذ باللہ)

قرآن میں درج ہے کہ جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کی روح عالم برزخ میں رہتی ہے، تو پھر عذاب قبر کس پر ہوتا ہے؟ یہاں بھی قرآن اور خود ساختہ عقیدے میں فرق ہے ، اور اللہ کی بات میں فرق ہو ہی نہیں سکتا۔

اس لئے یہ ثابت ہوا کہ عذاب قبر کوئی چیز نہیں ہے جو کچھ ہو گا وہ حشر میں حساب کتاب کے بعد ہوگا،اور جو آدمی گناہگار ہوتے ہیں ، جن کو قرآن نے آل فرعون قرار دیا ہے ، ان پر عذاب دنیا میں ان کی زندگی میں ہی ہوتا رہتا ہے ، یعنی وہ ہر وقت بے چین اور خوفزدہ رہتے ہیں، اور قیامت کے دن ان پر فرد جرم عائد کرکے ان کو ہمیشگی کے عذاب میں دوزخ میں ڈال دیاجائے گا۔

Urdu book Ilmul-Fiqh-Fil-Quran
https://archive.org/details/Ilmul-Fiqh-Fil-Quran
’’علم الفقہ فی القرآن‘‘۔مصنف،سکندر احمد کمال

all books sikandar ahmad kamal

کیا قبر میں مردے سنتے ہیں؟

مشہور تصدیق شدہ عقیدہ ہے کہ مردے قبرمیں سنتے ہیں کیونکہ وہ ز.دہ ہیں۔ اور جو قبر میں زندہ ہیں ان پر عذاب بھی ہورہاہے۔ سلام کا جواب بھی دیتے ہیں۔ اس عقیدے کی تصدیق کے لئے قرآن سے معلوم کرنا ہے۔ کیا یہ درست ہے یا غلط؟
سورۃ نمل (۲۷) آیت ۸۰ : بے شک آپ نہ مُردوں کو سنا سکتے ہو اور نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہو۔
سورۃ روم (۳۰) آیت ۲۵ : بے شک آپ مُردوں کو نہیں سناسکتے اور نہ بہروں کو اپنی آواز سنا سکتے ہو۔ جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر مڑ گئے ہوں۔
سورۃ فاطر (۳۵) آیت ۲۲: اور زندے اور مردے برابر نہیں ہوسکتے اللہ تعالیٰ جس کو چاہا ہے سنا دیتا ہے۔ اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں۔
سورۃ المومنون (۲۳) آیت ۱۴: وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے۔
سورۃ المومنون(۲۳) آیت ۱۵ : اس کے بعد پھر تم سب یقیناًمرجانے والے ہو۔
سورۃ المومنون(۲۳) آیت ۱۶ :پھر قیامت کے دن بلاشبہ تم سب اٹھائے جاؤگے۔
سورۃ المومنون(۲۳) آیت ۱۹ : یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے گی تو کہے گا کہ اے رب مجھے دنیا میں پھر واپس کردے۔
سورۃ النجم (۵۳) آیت ۴۷: اور یہ کہ اس کے ذمہ دوبارہ پیدا کرنا ہے۔
سورۃ التغابن (۶۴) آیت ۷: ان کافروں نے خیال کیا ہے کہ وہ دوبارہ زندہ نہیں کئے جائیں گے۔ آپ کہہ دیجئے کہ کیوں نہیں اللہ کی قسم تم ضرور دوبارہ اٹھائے جاؤگے۔ پھر جو تم نے کیا ہے اس کی خبر دئے جاؤگے اور اللہ پر یہ بالکل ہی آسان ہے۔
سورۃ البروج (۸۵) آیت ۱۳: وہی پہلی بار پیدا کرتا ہے وہی دوبارہ زندہ کرے گا۔
سورۃ المومنون (۲۳) آیت ۔۱۰۰: اس دنیا میں جسے میں چھوڑ آیاہوں۔ شاید میں نیک کام کروں۔ حکم ہوگا ہرگز نہیں! یہ تو ایک بات ہے جو وہ بک رہاہے وہ ہرگز واپس نہ ہوگا اب سب ان (مرنے والوں کے) پیچھے ایک حجاب برزخ ہے دوبارہ اٹھائے جانے کے دن تک۔
نوٹ : دوچیزوں کے درمیان حجاب اور آڑ کو برزخ کہا جاتا ہے دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی کے درمیان جووقفہ ہے۔اسے یہاں برزخم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ مرنے کے بعد انسان کا تعلق دنیا کی زندگی سے ختم ہوجاتا ہے اور آخرت کی زندگی کا آغاز اس وقت ہوگا جب تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ یہ درمیان کی زندگی برزخ کی زندگی ہے۔ انسان کا یہ وجود جہاں بھی اور جس شکل میں بھی ہوگابظاہر وہ مٹی میں مل کر مٹی بن چکا ہوا۔ یا راکھ بناکر ہواؤں میں اڑا دیا، یا دریاؤں میں بہادیا گیاہوگا یا کسی جانور کی خوراک بن گیا ہوگا۔ مگر اللہ تعالیٰ سب کو ایک نیا وجود عطا فرماکر میدان محشر میں جمع فرمائے گا۔ یہ تفسیر مولانا محمد جوناگڑھی کے ترجمہ پر مولانا صلاح الدین یوسف کی تحریر کردہ ہے (صفحہ ۹۵۹، سورۃ المومنون)۔
مذکورہ بالا درج آیات اور تفسیر سے یہ ظاہر ہورہاہے کہ مردے قبروں میں نہ سنتے ہیں اور نہ جواب دیتے ہیں۔ بلکہ مرنے کے بعد جسم قبرمیں دفن کردیا جاتا ہے۔ اور روح عالم برزخ میں رہتی ہے، حشر کے دن تک۔ میدان حشر میں حساب کتاب کے لیے اللہ کو جمع کرنا ہوگا تب دوبارہ زندہ کرے گا اور سب انسان اپنے جسموں کے ساتھ حشر میں جمع ہوں گے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہواکہ عذاب قبر بھی نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن سے ہی یہ ثابت ہے کہ دو زندگی اور دو موت ہیں۔ اگر عذاب قبر کو تسلیم کیا جاتا ہے تو تین زندگی اور تین موت ثابت ہوجاتی ہیں۔ جب کہ قرآن میں دو زندگی اور دو موت ہی ہیں۔ جو سچ ہے۔ کیوں کہ قرآن میں تضاد نہیں۔ عذاب قبر کو قرآن منع کرتاہے۔ پھر رسول کیسے فرمادیتے کہ عذاب قبر حق ہے اور ہوتا ہے؟ اگر ایسا فرمایا ہے تو کیا محمدﷺ اللہ کے فرمان کو تسلیم نہیں کرتے تھے گویا مخالفت کرکے مقابلہ کرنے پر آمادہ؟ جب کہ مقابلہ ممکن نہیں ہے۔ محمد ﷺ صد فی صد قرآن کی پیروی کرنے والے تھے۔
قرآن کے بعد روایات کو دیکھا جائے کہ اس سے کیا ثابت کیا جاتاہے، کیا وہ قرآن کے مطابق ہے یا خلاف؟
بخاری جلد اول، کتاب الجنائز، باب ۸۵۰، صفحہ ۵۰۹، مردہ جوتوں کی آہٹ سنتا ہے۔ حدیث نمبر ۱۲۵۱:۔ انسؓ روایت کرتے ہیں، رسول ﷺ نے فرمایا۔ انسان جب قبر میں دفن کردیا جاتا ہے۔ اور لوگ مڑنے لگتے ہیں تو وہ جوتوں کی آہٹ (باخوبی) سنتا ہے۔ دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں۔ اسے بٹھاکر اس سے کہتے ہیں اس شخص محمدﷺ کے بارے میں تمہارے کیا خیال ہے؟ وہ کہتا ہے میں گواہ ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ کے بندے اور رسول ہیں اسے کہا جاتا ہے دوزخ میں اپنی جگہ دیکھ لے کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے اس کے بدلے میں جنت عطا فرمادی، رسولﷺ فرماتے ہیں وہ یہ دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے اور کافر یا منافق کہتاہے مجھے (چنداں) معلوم نہیں میں تو وہی کہتا ہوں جو لوگ کہتے تھے اس سے کہا جائے گا نہ تو تو نے جانا اور نہ سمجھا پھرلوہے کے ہتھوڑے اس کے کانوں کے درمیان مارے جاتے ہیں۔ اور وہ چیختا ہے اس چیخ کو انسانوں اور جنوں کے علاوہ آس پاس کی تمام چیزیں سنتی ہیں۔
بخاری جلد اول، کتاب الجنائز، صفحہ ۵۱۷، حدیث نمبر ۱۲۷۱ :۔ ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں رسولﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے، جنہیں عذاب دیا جارہا تھا۔ آپ نے فرمایا ان دونوں پر عذاب ہورہاہے۔ لیکن کسی خام جرم کی وجہ سے نہیں ان میں ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے احتیاط نہیں کرتا تھا۔ اور دوسرا چغل خور تھاپھر ایک سبز شاخ لی،اور اس کے دو ٹکڑے کرکے ایک ایک قبر پر رکھ دیے۔ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسولﷺ یہ کس مقصد کے لیے ہیں؟ رسولؓ نے فرمایا جب تک یہ سرسبز رہیں گی شاید ان کے عذاب میں تخفیف رہے۔
نوٹ: گویا یقیننہ تھا۔ پھر ایسا کام کرنے سے کیا فائدہ اور اگر اس کام سے فائدہ ہے تو اس میں شک سے کیا فائدہ؟۔ اس لئے ان کو عذاب سے بچانے کے ہلئے ان کی قبرپر ہرے بھرے درخت لگتے رہنے چاہئے۔ جلد اول بخاری کتاب الجنائز، صفحہ ۵۲۱، حدیث ۱۲۷۹۔ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسولؓ نے اس کنویں میں جھانکا،جہاں مقتولین بدر پڑے تھے۔ فرمایا کیا تم نے خدا کا وعدہ سچا پایا، آپؐ سے کہا گیا کہ کیا آپ مُردوں کو پکارتے ہیں، فرمایا تم ان سے زیادہ نہیں سنتے۔ (البتہ وہ جواب نہیں دے سکتے)۔
اس روایت سے مختلف روایت ذیل میں درج ہے۔
کتاب الجنائز جلد اول، بخاری، صفحہ ۵۲۱، حدیث نمبر ۱۲۸۱ :۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رسولﷺ نے فرمایا بلاشبہ انہیں معلوم ہوجائے گاجو میں کہتا تھا وہ صحیح ہے یعنی ارشاد خداوندی ہے کہ ’’تم مردوں کو نہیں سناسکتے‘‘۔
دونوں روایتوں میں زبردست تضاد ہے۔ کیا قبروں میں مردے سنتے ہیں؟ اس کتاب کا آخری مقدمہ ہے۔ ہمارے یہاں قرآن اور روایات میں اتنا زبردست تضاد ہے کہ اس کا شمار بھی مشکل ہے۔ اور اس تضاد سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ اور رسول کا راستہ الگ الگ ہے۔ اللہ کہتا ہے کہ اختلاف زحمت ہے،مگر رسول کا فرمان ہے کہ اختلاف امت رحمت ہے۔ گویا رسول اللہ کے فرمان کو تسلیمج نہیں کر رہے ہیں۔ اور امت نے بھی رسول کے فرمان کو تسلیم کرلیا ۔ اور اس ماننے نہ ماننے سے ایسا لگ رہاہے کہ اللہ اور رسول میں ایک جنت ہورہی ہے (نعوذ باللہ)۔جب کہ ایسا نہیں ہے۔ محمد ﷺ اللہ کے فرمان کے سوفی صد پابند تھے اس لئے نبی اللہ کے خلاف نہیں فرما سکتے تھے۔ جو بھی قرآن کے خلاف اللہ کے نبی سے منسوب کیا گیا ہے۔ وہ جھوٹ ہے۔ نبی کی کردار کشی ہے۔ اللہ ہم کو عقل دے کہ ہم ایسی موضوع، روایات کو تسلیم نہ کروں، اور قرآن کی کسوٹی پر ایسی ہر روایت کو پرکھیں۔ جو نبیؐ کے نام سے ہم تک پہنچ رہی ہیں۔ محمدﷺ نے اپنے عمل اور قول سے ہمیں وہ بتایاجس کی تصدیق قرآن کر رہاہے، اور وہی دین ہے، اور کچھ نہیں۔ (تقبل)
’’کیا قبرمیں مردے سنتے ہیں‘۔’’قرآن بنام روایات۔ عوام کی عدالت میں‘‘ مصنف: سکندر احمد کمال ،صفحہ ۳۱۴ سے۳۱۷۔
Book PDf Quran-Banam-Rawayaat

अजाबे क़ब्र


क़ुरआन में अज़ाब क़ब्र के जे़ल में क्या दर्ज है? पेश है:


सूरत बक़रा(२) आयत८२। तुम अल्लाह की हस्ती को नकार किस तरह कर सकते हो, जब कि तुम ख़ुद ही आप इस हस्ती की एक दलील हो जिसका इनकार तुम कर ही नहीं सकते , एक वक़्त वो था जब तुम मौजूद नहीं थे (यानी मुर्दा) फिर उसने अपने क़ानून के मुताबिक़ तुम्हें ज़िंदगी अता की, फिर तुम्हें मौत देगा। फिर तुम आमाल की जवाबदेही के लिए उस की तरफ़ लौटाए जाओगे, यानी ज़िंदा किए जाओगे।
* सूरत मोमिन (०४) आयत ११ । कहेंगे ए हमारे परवरदिगार ! तूने हमें दो मर्तबा मौत की हालत में रखा, और दो मर्तबा ज़िंदा क्या । आज हम अपने गुनाहों का एतराफ़ करते हैं , तो क्या अब दोज़ख़ से निकलने की कोई राह है? 
* सूरत दुख़ान(४४) आयत ५५:६५। वहां इतमीनान से हर तरह के मेवे तलब करेंगे , और दुनिया की पहली मौत के बाद मौत का मज़ा नहीं चखेंगे , अल्लाह उनको दोज़ख़ के अज़ाबसे बचाएगा।
क़ब्र के अज़ाब को साबित करने के लिए सूरत मोमिन की आयत ६४ का इस तरह तर्जुमा किया जाता है आग है जिसके सामने ये सुबह शाम लाए जाते हैं और जिस दिन क़ियामत क़ायम होगी (फ़रमान होगा कि) फ़रावनियों को सख़्त अज़ाब में डालो।


इस आयत के इस तरह तर्जुमा करने से क़ब्र का अज़ाब साबित करने की नाकाम कोशिश की गई है। इस तर्जुमे से तीन ज़िंदगीयां और तीन मौतें साबित हो रही हैं । जबकि सूरत बक़रा, सूरत मोमिन और सूरत दुख़ान की मुहकम आयात से ज़िंदगी और मौत दो बार साबित होती हैं , इस तरह यहां ये तज़ाद पैदा किया गया है । जब कि अल्लाह के कलाम में कोई तज़ाद नहीं है। अब मुहकम आयत के तहत सूरत मोमिन की आयत ६४ का मफ़हूम दर्ज जे़ल है:
यानी जो फ़रावनियों के नक़श-ए-क़दम पर चलेंगे उनके लिए अपने गुनाहों के सबब इस दुनिया में किसी वक़्त क़रार नहीं आता , गोया हर वक़त सुबह शाम आतिश-ए-दोज़ख़ के सामने पेश होते रहते हैं , ज़हनी परेशानी में मुबतला रहते हैं । फ़रावनियों से मुराद नाफ़रमान लोगों से है । जो आदमी नाफ़रमान होता है इस की ज़िंदगी दुनिया में कभी सुकून से नहीं रहती। जो वो गुनाह करता है वो गुनाह हरवक़त उस के ज़हन में रहता है और वो गुनाह हरवक़त साँप बिच्छू की तरह उस के डंक मारते रहते हैं। और ज़हनी परेशानी आग उस को हर वक़त जलाती रहती है। मगर शैतान उस को , इस की नाफ़रमानियों को अच्छा कर के दिखाता है। इस लिए उनको नहीं छोड़ता, मगर जब भी वो फ़ुर्सत में ग़ौर करता है तो उन गुनाहों की सज़ा से लरज़ ज़रूर जाता है, और इतना परेशान होता है गोया उस को साँप बिच्छू डंक मार रहे हैं। मगर उस के दिल-ए-पर महर लग चुकी होती है, इस लिए गुनाहों से तौबा नहीं करता, और अंजाम कार दोज़ख़ का हक़दार बन जाता है, रोज़ देखने में आता है कि जो नाफ़रमान होते हैं वो हरवक़त ख़ौफ़ की वजह से बड़ी हिफ़ाज़त में रहते हैं, लेकिन क़तल होते रहते हैं , कभी भी सुकून नसीब नहीं होता, ये है सुबह शाम दोज़ख़ के सामने पेश होना।इन लोगों पर हरवक़त अल्लाह की लानत होती रहती है।


इन्सान जब मर जाता है तो मरने के बाद उस की रूह कहाँ रहती है? क़ुरआन के मुताबिक़ देखा जाये:

* सूरत इल्मो मनून(३२) आयत९९। यहां तक कि जब उन में से किसी के पास मौत आजाएगी तो कहेगा कि ए मेरे रब! मुझे फिर दुनिया में वापिस कर दे। सूरत मोमनोन। आयत००१। (इस दुनिया में ) जिसे में छोड़ आया हूँ शायद (इस मर्तबा) में नेक काम करूँ । हुक्म होगा, हरगिज़ नहीं ! ये तो एक बात है जो वो बक रहा है , वो हरगिज़ वापिस ना होगा। अब इन सब (मरने वालों के) पीछे एक बर्ज़ख़ (आड़) है , दुबारा उठाए जाने के दिन तक।
ये है क़ुरआन का हुक्म कि जब आदमी मर जाता है तो इस का ठिकाना क़यामत तक बर्ज़ख़ में है, जो एक पर्दा है और दोबार ज़िंदगी और दोबार मौत । इस लिए अज़ाब क़ब्र का अक़ीदा ग़लत है अगर अज़ाब क़ब्र को सहीह मान लिया जाये जिस में लिखा है कि क़ब्र में मुर्दे को ज़िंदा किया जाता है और इस को अज़ाब देने के लिए फ़रिश्ता मुक़र्रर कर दिए जाते हैं जो उठने के दिन तक इस को अज़ाब देते रहते हैं , तो इस तरह तीन ज़िंदगीयां हो जाती हैं , और क़ुरआन दो ज़िंदगी बता रहा है, इस तरह दो ज़िंदगी और तीन ज़िंदगी में तज़ाद हो गया, जबकि क़ुरआन में तज़ाद नहीं है। इस लिए क़ब्र में कोई अज़ाब नहीं होगा। मरने के बाद रूह बर्ज़ख़ में रहती है। और जब सूर फूँका जाएगा, तो सब अर्वाह जिस्म के साथ हश्र में हिसाब के लिए जमा हो जाएंगी , जिसका क़ुरआन शाहिद है:
* सूरत यूनुस(०१) आयत ४३। उनसे पूछो ! क्या तुम्हारे शरीकों में कोई ऐसा भी है , जो पहली बार मख़लूक़ को पैदा करे , फिर उस को दुबारा बनाए ? कह दो !अल्लाह ही है जो पहली बार पैदा करता है ,और वही है जो फिर पैदा करेगा, फिर तुम कहाँ बहके जा रहे हो?* सूरत तहहा(०२) आयत५५। इसी ज़मीन की मिट्टी से हमने (तुम्हारे माँ बाप आदम-ओ-हवा को) तुम को पैदा किया और इसी में तुम को लौटा देते हैं , इसी मिट्टी से तुमको दुबारा ज़िंदा कर के निकालेंगे।
* सूरत इल्मो मनून(३२) आयत ५१। फिर उस के बाद तुमको ज़रूर मरना है।
सूरत मोमनोन। आयत ६१। फिर क़यामत के दिन यक़ीनन तुम उठाए जाओगे।

* सूरत इलजा सिया(५४) आयत ६२। कह दो! अल्लाह ही तुमको जान बख़्शता है ,फिर वही तुमको मौत देता है , फिर तुम क़यामत के रोज़ जिसके आने )में कुछ शक नहीं, वो तुमको जमा करेगा, लेकिन बहुत से लोग नहीं जानते।

इस बारे में एक और दलील लिखी जा रही है , जिस पर ग़ौर करना ज़रूरी है अज़ाब क़ब्र के ना होने के लिए,वो ये कि एक गुनाह-गार आदमी दुनिया के शुरू में इंतिक़ाल कर गया तो मौजूदा अक़ीदा के मुताबिक़ इस पर अज़ाब क़ब्र शुरू हो गया, और एक गुनाह-गार जब मरेगा जब क़यामत का दिन होगा , तो इस पर अज़ाब क़ब्र नहीं हो सकेगा, क्योंकि वो दफ़नाया भी ना जा सकेगा। ये बात ग़ौर-ओ-फ़िक्र के लिए लिखी जा रही है कि एक शख़्स पर लाखों साल अज़ाब क़ब्र और एक शख़्स पर एक दिन भी नहीं , किया अल्लाह इतना ही बे इन्साफ़ है? (नऊज़-बिल-लाह)

क़ुरआन में दर्ज है कि जब आदमी मर जाता है तो इस की रूह आलम-ए-बजर्ख़ में रहती है, तो फिर अज़ाब क़ब्र किस पर होता है? यहां भी क़ुरआन और ख़ुद-साख़्ता अक़ीदे में फ़र्क़ है , और अल्लाह की बात में फ़र्क़ हो ही नहीं सकता।


इस लिए ये साबित हुआ कि अज़ाब क़ब्र कोई चीज़ नहीं है जो कुछ होगा वो हश्र में हिसाब किताब के बाद होगा, और जो आदमी गुनाह-गार होते हैं , जिनको क़ुरआन ने ऑल फ़िरऔन क़रार दिया है, उन पर अज़ाब दुनिया में उनकी ज़िंदगी में ही होता रहता है , यानी वो हर वक़त बेचैन क़यामत के दिन उन पर फ़र्द-ए-जुर्म आइद करके उनको हमेश्गी के अज़ाब में दोज़ख़ में डाल दिया जाये गा।

Urdu book Ilmul-Fiqh-Fil-Quran
https://archive.org/details/Ilmul-Fiqh-Fil-Quran
’’علم الفقہ فی القرآن‘‘۔مصنف،سکندر احمد کمال
मुसन्निफ़,सिकन्दर अहमद कमाल 
all books links sikandar ahmad kamal


یا ۔

क्या क़ब्र में मुर्दे सुनते हैं?
मशहूर तसदीक़ शूदा अक़ीदा है कि मुर्दे क़ब्र में सुनते हैं क्योंकि वो ज़.दह हैं। और जो क़ब्र में ज़िंदा हैं उन पर अज़ाब भी हो रहा है। सलाम का जवाब भी देते हैं। इस अक़ीदे की तसदीक़ के लिए क़ुरआन से मालूम करना है। क्या ये दरुस्त है या ग़लत?
सूरत नमल (२७) आयत ८० : बे-शक आप ना मर्दों को सुना सकते हो और ना बहरों को अपनी पुकार सुना सकते हो।
सूरत रुम (३०) आयत २५ : बे-शक आप मर्दों को नहीं सुना सकते और ना बहरों को अपनी आवाज़ सुना सकते हो। जबकि वो पीठ फेर कर मुड़ गए हूँ।
सूरत फ़ातिर (३५) आयत २२: और ज़नदे और मुर्दे बराबर नहीं हो सकते अल्लाह ताला जिसको चाहा है सुना देता है। और आप उन लोगों को नहीं सुना सकते जो क़ब्रों में हैं।
सूरत अल्मोमिनून (२३) आयत १४: वो अल्लाह जो सबसे बेहतरीन पैदा करने वाला है।
सूरत अल्मोमिनून (२३) आयत १५ : उस के बाद फिर तुम सब यक़ीनन मिर्जा ने वाले हो।
सूरत अल्मोमिनून(२३) आयत १६ :फिर क़ियामत के दिन बिलाशुबा तुम सब उठाए जाओगे।
सूरत अल्मोमिनून(२३) आयत १९ : यहां तक कि जब उनमें से किसी के पास मौत आजाएगी तो कहेगा कि अरब मुझे दुनिया में फिर वापिस कर दे।
सूरत अलनजम (५३) आयत ४७: और ये कि इस के ज़िम्मा दुबारा पैदा करना है।
सूरत अलतग़ाबन (६४) आयत ७: इन काफ़िरों ने ख़्याल किया है कि वो दुबारा ज़िंदा नहीं किए जाऐंगे। आप कह दीजिए कि क्यों नहीं अल्लाह की क़सम तुम ज़रूर दुबारा उठाए जाओगे। फिर जो तुमने किया है इस की ख़बर दिए जाओगे और अल्लाह पर ये बिलकुल ही आसान है।
सूरत अल्बर विज (८५) आयत १३: वही पहली बार पैदा करता है वही दुबारा ज़िंदा करेगा।
सूरत इल्मो मनून (२३) आयत ।१००: इस दुनिया में जिसे में छोड़ आया हूँ। शायद मैं नेक काम करूँ। हुक्म होगा हरगिज़ नहीं! ये तो एक बात है जो वो बिक रहा है वो हरगिज़ वापिस ना होगा अब सब उन (मरने वालों के) पीछे एक हिजाब बर्ज़ख़ है दुबारा उठाए जाने के दिन तक।
नोट : दो चीज़ों के दरमयान हिजाब और आड़ को बर्ज़ख़ कहा जाता है दुनिया की ज़िंदगी और आख़िरत की ज़िंदगी के दरमयान जो वक़फ़ा है।उसे यहां बर्ज़ ख़म से ताबीर किया गया है। क्योंकि मरने के बाद इन्सान का ताल्लुक़ दुनिया की ज़िंदगी से ख़त्म होजाता है और आख़िरत की ज़िंदगी का आग़ाज़ उस वक़्त होगा जब तमाम इन्सानों को दुबारा ज़िंदा किया जाएगा। ये दरमयान की ज़िंदगी बर्ज़ख़ की ज़िंदगी है। इन्सान का ये वजूद जहां भी और जिस शक्ल में भी होगा बज़ाहिर वो मिट्टी में मिलकर मिट्टी बन चुका हुआ। या राख बनाकर हवाओं में उड़ा दिया, या दरियाओं में बहा दिया गया होगा या किसी जानवर की ख़ुराक बन गया होगा। मगर अल्लाह ताला सबको एक नया वजूद अता फ़रमाकर मैदान मह्शर में जमा फ़रमाएगा। ये तफ़सीर मौलाना मुहम्मद जो ना गढ़ी के तर्जुमा पर मौलाना सलाह उद्दीन यूसुफ़ की तहरीर करदा है (सफ़ा ९५९, सूरत इल्मो मनून)।

मज़कूरा बाला दर्ज आयात और तफ़सीर से ये ज़ाहिर हो रहा है कि मुर्दे क़ब्रों में ना सुनते हैं और ना जवाब देते हैं। बल्कि मरने के बाद जिस्म क़ब्र में दफ़न कर दिया जाता है। और रूह आलम-ए-बजर्ख़ में रहती है, हश्र के दिन तक। मैदान-ए-हश्र में हिसाब किताब के लिए अल्लाह को जमा करना होगा तब दुबारा ज़िंदा करेगा और सब इन्सान अपने जिस्मों के साथ हश्र में जमा होंगे। इस से ये भी साबित हुआ कि अज़ाब क़ब्र भी नहीं है। क्योंकि क़ुरआन से ही ये साबित है कि दो ज़िंदगी और दो मौत हैं। अगर अज़ाब क़ब्र को तस्लीम किया जाता है तो तीन ज़िंदगी और तीन मौत साबित होजाती हैं। जब कि क़ुरआन में दो ज़िंदगी और दो मौत ही हैं। जो सच्च है। क्यों कि क़ुरआन में तज़ाद नहीं। अज़ाब क़ब्र को क़ुरआन मना करता है। फिर रसूल कैसे फ़र्मा देते कि अज़ाबे क़ब्र हक़ है और होता है? अगर ऐसा फ़रमाया है तो क्या मुहम्मद अल्लाह के फ़रमान को तस्लीम नहीं करते थे गोया मुख़ालिफ़त करके मुक़ाबला करने पर आमादा? जब कि मुक़ाबला मुम्किन नहीं है। मुहम्मद सद फ़ीसद क़ुरआन की पैरवी करने वाले थे।

क़ुरआन के बाद रवायात को देखा जाये कि इस से किया साबित किया जाता है, क्या वो क़ुरआन के मुताबिक़ है या ख़िलाफ़?
बुख़ारी जलद अव्वल, किताब अलजनाइज़, बाब ८५०, सफ़ा ५०९, मुर्दा जूतों की आहट सुनता है। हदीस नंबर १२५१:। अनसओ रिवायत करते हैं, रसूल ने फ़रमाया। इन्सान जब क़ब्र में दफ़न कर दिया जाता है। और लोग मुड़ने लगते हैं तो वो जूतों की आहट (बाखूबी) सुनता है। दो फ़रिश्ते उस के पास आते हैं। उसे बिठाकर इस से कहते हैं इस शख़्स मुहम्मद के बारे में तुम्हारे क्या ख़्याल है? वो कहता है मैं गवाह हूँ कि अल्लाह के सिवा कोई माबूद नहीं और अल्लाह के बंदे और रसूल हैं उसे कहा जाता है दोज़ख़ में अपनी जगह देख ले कि अल्लाह ताला ने तुझे उस के बदले में जन्नत अता फ़र्मा दी, रसूल फ़रमाते हैं वो ये दोनों ठिकाने देखता है और काफ़िर या मुनाफ़िक़ कहता है मुझे (चंदाँ) मालूम नहीं में तो वही कहता हूँ जो लोग कहते थे इस से कहा जाएगा ना तू तू ने जाना और ना समझा फिर लोहे के हथौड़े उस के कानों के दरमयान मारे जाते हैं। और वो चीख़ता है इस चीख़ को इन्सानों और जुनूँ के इलावा आस-पास की तमाम चीज़ें सुनती हैं।
बुख़ारी जलद अव्वल, किताब अलजनाइज़, सफ़ा ५१७, हदीस नंबर १२७१ :। इबन अबासओ रिवायत करते हैं रसूल दो क़ब्रों के पास से गुज़रे, जिन्हें अज़ाब दिया जा रहा था। आपने फ़रमाया इन दोनों पर अज़ाब हो रहा है। लेकिन किसी ख़ाम जुर्म की वजह से नहीं उनमें एक तो पेशाब के छींटों से एहतियात नहीं करता था। और दूसरा चुगु़लखोर था फिर एक सबज़ शाख़ ली,और इस के दो टुकड़े करके एक एक क़ब्र पर रख दिए। लोगों ने पूछा ए अल्लाह के रसूल ये किस मक़सद के लिए हैं? रसोलओ ने फ़रमाया जब तक ये सरसब्ज़ रहेंगी शायद उनके अज़ाब में तख़फ़ीफ़ रहे।
नोट: गोया यक़ीनना था। फिर ऐसा काम करने से किया फ़ायदा और अगर इस काम से फ़ायदा है तो इस में शक से किया फ़ायदा?। इस लिए उनको अज़ाब से बचाने के हुलिए उनकी क़ब्र पर हरे-भरे दरख़्त लगते रहने चाहीए। जल्द अव्वल बुख़ारी किताब अलजनाइज़, सफ़ा ५२१, हदीस १२७९। इब्न-ए-उम्र रिवायत करते हैं कि रसोलओ ने इस कुँवें में झाँका,जहां मक़्तूलीन बदर पड़े थे। फ़रमाया क्या तुमने ख़ुदा का वाअदा सच्चा पाया, आपऐ से कहा गया कि क्या आप मर्दों को पुकारते हैं, फ़रमाया तुम उनसे ज़्यादा नहीं सुनते। (अलबत्ता वो जवाब नहीं दे सकते)।

इस रिवायत से मुख़्तलिफ़ रिवायत जे़ल में दर्ज है।
किताब अलजनाइज़ जलद अव्वल, बुख़ारी, सफ़ा ५२१, हदीस नंबर १२८१ :। सय्यदा आईशा रज़ी अल्लाह अनहा रिवायत करती हैं कि रसूल ने फ़रमाया बिलाशुबा उन्हें मालूम हो जाएगा जो मैं कहता था वो सही है यानी इरशाद ख़ुदावंदी है कि तुम मर्दों को नहीं सुना सकते।
दोनों रिवायतों में ज़बरदस्त तज़ाद है। क्या क़ब्रों में मुर्दे सुनते हैं? इस किताब का आख़िरी मुक़द्दमा है। हमारे यहां क़ुरआन और रवायात में इतना ज़बरदस्त तज़ाद है कि इस का शुमार भी मुश्किल है। और इस तज़ाद से ऐसा ज़ाहिर होता है कि अल्लाह और रसूल का रास्ता अलग अलग है। अल्लाह कहता है कि इख़तिलाफ़ ज़हमत है,मगर रसूल का फ़रमान है कि इख़तिलाफ़ उम्मत रहमत है। गोया रसूल अल्लाह के फ़रमान को तसलीमज नहीं कर रहे हैं। और उम्मत ने भी रसूल के फ़रमान को तस्लीम कर लिया । और इस मानने ना मानने से ऐसा लग रहा है कि अल्लाह और रसूल में एक जन्नत हो रही है (नऊज़-बिल-लाह)।जब कि ऐसा नहीं है। मुहम्मद अल्लाह के फ़रमान के सूफ़ी सद पाबंद थे इस लिए नबी अल्लाह के ख़िलाफ़ नहीं फ़र्मा सकते थे। जो भी क़ुरआन के ख़िलाफ़ अल्लाह के नबी से मंसूब किया गया है। वो झूट है। नबी की किरदार कशी है। अल्लाह हमको अक़ल दे कि हम ऐसी मौज़ू, रवायात को तस्लीम ना करूँ, और क़ुरआन की कसौटी पर ऐसी हर रिवायत को परखें। जो नबीऐ के नाम से हम तक पहुंच रही हैं। मुहम्मद ने अपने अमल और क़ौल से हमें वो बताया जिस की तसदीक़ क़ुरआन कर रहा है, और वही देन है, और कुछ नहीं। (तक़ब्बुल)

क्या क़ब्र में मुर्दे सुनते हैं।
क़ुरआन बनाम रवायात। अवाम की अदालत में मुसन्निफ़: सिकन्दर अहमद कमाल ,सफ़ा ३१४ से३१७।