flipkart search bar

tabsarati mazmoon dr Farooq Khan

تبصراتی مضمون
از: مولانا محمد فاروق(اردو بک ریویو،جولائی،اگست،ستمبر:۲۰۰۷ء)
हिंदी में उर्दू के बाद दिया गया है
اردو،ہندی میں قرآن مجید کا نیا ترجمہ
उर्दू,हिन्दी में क़ुरआन-ए-मजीद का नया तर्जुमा
منظّم مفہوم القرآن، قرآن کریم کاایک خاص قسم کا ترجمہ ہے۔ ترجمہ کے ساتھ مترجم کی تصریحات بھی شامل کتاب ہیں جس سے اس ترجمہ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ مترجم نے کتاب کے شروع میں تاریخ اسلامی کاایک جائزہ لیاہے اور دکھایا ہے کہ یہ تاریخ کس نشیب و فراز سے دوچار ہوئی ہے اور اس کے اسباب کیا رہے ہیں اور آج امت مسلمہ کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ کتاب ہدایت قرآن کریم سے حقیقی وابستگی، امت پر فرض ہی نہیں ہے بلکہ قرآن سے علمی و عملی وابستگی ہی اس کے مسائل کا حقیقی حل بھی ہے۔
مترجم موصوف کے نزدیک قرآن فہمی کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں قرآن کے بیان پورا اعتماد و یقین حاصل ہو۔ قرآن کے مقابلہ میں کوئی دوسری چیز ایسی نہیں ہوسکتی جس پر ہم قرآن سے بڑھ کر بھروہ کرسکیں۔ اصل سرچشمہ علم و دانش قرآن ہی ہے۔ دوسری چیزیں قرآن فہمی میں معاون تو ہوسکتی ہیں لیکن انہیں اصل کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ قرآن اور تفسیری روایات میں اگر تضاد پایا جاتا ہے اور تطبیق کی کوئی صورت نہیں نکلتی تو ترجیح قرآن ہی کو دی جائے گی۔ اس کے علاوہ قرآن کی کسی آیت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس آیت میں جو مضمون بیان ہواہے وہ مضمون اگر قرآن کی کسی دوسری آیت یا آیات میں بھی بیان ہوا ہے تو اس مضمون سے متعلق قرآن کی تمام ہی آیات کی روشنی میں اس آیت کے مفہوم و معنی کو متین کرنے کی کوشش کریں۔ قرآن کی بعض آیات، بعض آیات کی تفسیر بھی کرتی ہیں۔ اس اصول کو نظرانداز کرنا صحیح نہ ہوگا۔ اس بنیادی اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو بہت سی الجھنیں یا اشکالات خودبخود دور ہوسکتے ہیں۔ مترجم موصوف نے قرآنی آیات کی تفسیر میں ہی نہیں بلکہ ان کیے ترجمے می ں بھی اس بنیادی اصول کواپنے پیش نظر رکھا ہے۔ خاص طورسے قرآن کے دومقامات جہاں محض لفظی ترجمے سے قرآن کاصحیح مفہوم واضح نہیں ہوتا بلکہ اشکالات پیدا ہوتے ہیں۔
مترجم نے جس دقت نظری اور فکر و تدبر سے کام لیا ہے اس قرآن کے بعض مقامات پر قرآن کے نہایت قابل قدر معانی و مفاہیم سے ہم آشنا ہوتے ہیں۔ ان مفاہیم و مطالب کو تفردات کہہ کر نظرانداز کرنا صحیح نہ ہوگا۔ اُن پر اہل علم کو غور و فکر کرکے کوئی رائے قائم کرنی چاہئے۔ علمی طورپر اگر قرآن کی کسی آیت کا ایسا مفہوم سامنے آتاہے جو کلام الٰہی کے شایان شان ہے تو اسے تسلیم کرنے میں یہ چیز مانع نہیں ہوسکتی کہ یہ مفہوم عام مترجمین قرآن اور مفسرین کی رائے کے خلاف ہے۔
اس سلسلہ میں کئی چیزیں ہمارے سامنے آئیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں صرف چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔
سورہ بقرہ آیت ۶(اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْسَوَاء عَلَیْھِمْ ءَ اَنذَرتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنذِرھُم لَا یُؤمِنُونَ) کا ترجمہ بالعموم یہ کیا جاتا ہے کہ ’’جنہوں نے کفر کیا ان کے لئے یکساں ہے، انہیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ، وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔‘‘ اگر ایسا ہے توپھر نبی کا کام ہی ختم ہوجاتا ہے۔ وہ لاحاصل کام میں کیوں اپنا وقت صَرف کرے گا۔ صحیح ترجمہ یہ ہے: ’’جن لوگوں نے کفر کیا اسن کے لئے برابر رہاتم نے انہیں خبردا رکیاہویاانہیں خبردار نہ کیاہو، وہ ایمان نہیں لارہے ہیں۔‘‘
اس آیت میں صورتِس حال پر روشنی ڈالی گئی ہے، مستقبل کی بتا نہیں کی گئی ہے۔ مستقبل میں تو کتنے ہی افراد ایمان لے آئے۔ دنیانے ’یَدخُلُونَ فِی دِینِ اللہِ اَفوَاجا‘ کا منظر بھی دیکھا۔ آیت ’لَم تُنذِرھُم‘ میں ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔مستقبل کا صیغہ استعمال نہیں ہوا ہے۔ مترجمین نے ماضی کو مستقبل کے معنی میں لے لیاجس کی وجہ سے اشکال پیداہوگیاؤ مضارع پر جب لم داخل ہوتا ہے تو وہ اسی ماضی کردیتا ہے، یہ ایک عام اصول ہے۔
’فَلَنُوَلِّنکَ قِبْلَۃُ تَرْضٰھَا(بقرہ:۱۴۴) کا ترجمہ بالعموم کیا جاتا ہے: ’’اے نبیؐ ہم تمہارا رُخ اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جسے تم پسند کرتے ہو۔‘‘ یعنی کعبہ کو تمہارا قبلہ بنادیں گے۔ حالانکہ قرآن میں ’قِبلِۃُ تَرضٰھَا‘ آیا ہے۔ ’اِلیٰ قِبْلۃِ تَرَضٰھَا‘ نہیں آیا ہے۔ مترجم نے اس کا صحیح ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے: ’’پس ہم ضرور بالضرور تجھے متولی بنا دیں گے اس قبلہ کا جسے تو نے اختیار کر رکھا ہے اور تو راضی ہے۔‘‘ یعنی کعبہ کو آپؐ کو تولیت میں دینے کی بات کہی گئی ہے نہ کہ یہاں تحویل قبلہ کی خوش خبری دی جارہی ہے۔
اس سے پہلے اس آیت میں آیا: ’قلدنَریٰ تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَآءِ‘۔ اس کا ترجمہ بالعموم مترجمین یہ کرتے ہیں کہ’’ہم آسمان کی طرف تمہارے رُخ کی گردش دیکھ رہے ہیں۔’’مترجم کے نزدیک اس کا صحیح ترجمہ ہوگا۔ ’’ہم آسمان یعنی عالم بالا میں تمہاری بے قراری کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔‘‘ (پس لازماً ہم کعبہ کو تمہاری تولیت میں دے دیں گے۔وہ مشرکین کے قبضے میں نہیں رہے گا۔)
اسی طرح فاضل مترجم نے قرآن کے کتنے ہی مقامات پر قابل قدر ترجمہ کیا ہے۔اس سلسلہ میں بطور نمونہ ان مقامات کو دیکھا جاسکتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آزر کا قصہ سورہ اعنام آیت ۷۴۔۸۳۔ ناسخ و منسوخ کی بات (بقرہ: ۱۰۶)۔ مرتد کی سزا قتل نہیں (النساء:۱۳۷۔۱۳۸)، حضرت یونس علیہ السلام کا صحیح واقعہ (صٰفّٰت:۱۴۲)، حضرت زیدؓ کے سلسلہ میں سورہ احزاً کی آیت ۳۷ کا صحیح مفہوم۔ سورہ اعلیٰ میں سَنْقرِنُک فلا تَنسٰی، اِلامَاشَاءَ اللہ کا صحیح مفہوم۔ فَلِمَ قَتَلتُمُوھُم اِن کُنتُم صٰدقین(آل عمران:۱۸۳) اس کا ترجمہ بالعموم یہ کرتے ہیں کہ: ’’تم نے انہیں (انیاء) کو قتل کیوں کیا اگر تم سچے ہو‘‘۔ اس کا صحیح مفہوم مترجم موصوف نے سمجھا ہے کہ یہاں قتل کرنے سے مراد قتل کے درپے ہونا ہے۔ عربی میں فعل ارادۂ فعل کے لئے بھی آتا ہے۔
مترجم موصوف کی کاوشوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مترجم نے اہل علم کو دعوتِ غوروفکر دے دی ہے۔ غوروفکر اور تدبر کے بند دروازے کو وا کرنے کی موصوف نے جو کوشش کی ہے وہ لائق تحسین ہے۔
مترجم بھی ایک انسان ہیں۔وہ کوئی صاحب وحی، نبی بھی نہیں اس لئے ان کی تمام باتوں سے اتفاق کرنا ضروری نہیں ہے میرے نزدیک ان کی کاوشوں میں خوبیوں کے ساتھ بعض قابل اصلاح نقائص بھی پائے جاتے ہیں۔
قرآن کاترجمہ تری الامکان قرآن کے اصل متن سے قریب رہ کر کرنا چاہئے۔ تشریحی یا تفسیری ترجمہ احتیاط کے خلاف ہے۔ کسی آیت کی تفسی راگر ہمارے ذہن میں غلط ہے اور ہم نے اس آیت کا تفسیری یا تشریحی ترجمہ کردیاتو ترجمہ ہی غلط ہوجائے گا۔ ترجمہ تو متن سے قریب رہ کر ہی کرنا چاہئے۔ البتہ اس کی تفسیر اور تشریح ہم اپنی تحقیق کے مطابق کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں اگر غلط ہوگی تو صرف تفسیر غلط ہوگی، ترجمہ پر آنچ نہ آئے گی۔ تشریحی ترجمے میں اس کااندیشہ برابر رہتا ہے کہ یہ ترجمہ کہیں ہمیں اصل قرآن سے دور، بہت دور نہ کردے۔ مفہوم القرآن کے نام سے غلام احمد پرویز نے بھی قرآن کا ترجمہ کیا ہے۔ ترجمہ میں متن سے زیادہ اس کے مفہوم کو کھولنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس میں خوب قلم کی جولانی دکھائی گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب ہم اس کا مطالعہ کرتے ہیں توقرآن سے زیادہ پرویز صاحب کو ہم پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ وہ اکثر ہمیں قرآن سے قریب کرنے کے بجائے دور کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
منظّم مفہوم القرآن کی اشاعت کے پیچھے یہ خواہش کارفرما رہی ہے کہ قرآن کا ترجمہ پڑھتے ہوئے قاری کے ذہن میں کوئی اشکال اور الجھن نہ پیدا ہو۔ امکانی اشکالات کو ترجمہ ہی کے ذریعہ سے دور کردیا جائے، لیکن یہ طریقہ جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں احتیاط کے خلاف ہے۔ اس طریقہ کو اختیار کرنے کے باجود کتنے ہی مقامات ہیں جہاں مترجمہ موصوف اشکالات کے رفع کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طورپر جش شجر کے قریب جانے سے آدمؑ کو روکا گیاتھا،وہ کیا تھا؟ ان کی توضیح و تشریح کے باوجود اشکال اور الجھن دور نہیں ہوتی۔
اسی طرح آدمؑ کو جن اسماء کا علم خدانے عطا فرمایاتھا، جن سے فرشتے بے خبر تھے، ان اسماء سے مراد کیا ہے؟ مترجم نے جو کچھ اس سلسلہ میں لکھاہے اس سے بات بنتی دکھائی نہیں دیتی۔ آخراس سے فرشتوں کی کھٹک کیسے دور ہوگئی؟اگر اسماء سے مراد چیزوں کی خاصیتیں لی جائیں پھر تو یہ چیز اور خطرناک ہوسکتی ہے۔ پھر تو انسان بم اور میزائل وغیرہ ایجاد کرکے اور زیادہ امن عالم کو غارت کرنے کی پوزیشن میں ہوجائے گا۔
حروف مقطعات کے بارے میں مترجم کی یہ بات توقیمتی ہے کہ حروف مقطعات در حقیقت شارٹ فارم ہیں جس کا چلن جدید دور میں بھی پایا جاتا ہے، لیکن ان کی اطمینان بخش تصریح وہ نہیں کرسکتے۔بالعموم حروف مقطعات سے مراد محمدؐ لیا ہے بلکہ اسے اپنے ترجمے میں شامل کرتے ہوئے بھی وہ دکھائی دیتے ہیں۔ اسے محتاظ طریقہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔
ّٰ
سورۃ المرسلات، نازعات کے شروع میں جوقسمیں کھائی گئی ہیں اور جن چیزوں کو شہادت میں قرآن نے پیش کیا ہے ان کے تعین میں مترجم نے قرآنی نظائرکو بالکل نظرانداز کردیا ہے اور جو کچھ سمجھ میں آیابے تکلف لکھ دیا ہے۔ یہ طریقہ قائرین کو قرآن سے بہت دور کردے گا۔اس لئے حتی الامکان ترجمہ تشریحی نہیں ہونا چاہئے۔ تفسیر کی شکل میں آدمی اپنی تحقیقات اور آرا پیش کرسکتا ہے اور اہل علم کی بعض باتوں سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے کیونکہ اختلاف پربالکل ہی پابندی عائد کردی جائے تو علمی ارتقاء رُک جائے گا۔
بعض مقامات پر مترجم نے نہایت تساہل سے کام لیا ہے۔ مثلاً یہ کہناکہ چونکہ مسجد اقصیٰ تو مسلمانوں کی تعمیرہے، معراج کے موقع پر اس مسجد کی تعمیر ہی نہیں ہوئی تھی اس لئے مسجد اقصیٰ سے مراد عالم بالائی مسجد ہے جس کاذکر سورہ بنی اسرائیل کے شروع میں آیا ہے۔ اتنی عجلت کے ساتھ روایات کو رد کردیتا صحیح نہیں۔ آسمانی سفرکا مفسرین بھی انکارنہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ نبی اسرائیل کی پہلی آیت میں سفر معراج کے اس حصے کاذکر کیاگیا ہے جس کا تعلق ارضی سفرسے تھا۔ مسجد اقصیٰ سے مراد بیت المقدس ہے۔ اَلَّذِی اَسریٰ بِعَبدِہٖ لَیلَۃُ کا ترجمہ کیا ہے: ’’جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو۔‘‘ صحیح ترجمہ ہوگا: ’’جو لے گیا راتوں رات اپنے بندے کو۔‘‘ ایک رات کے لئے فِی لَیلَۃِ آتا ہے۔
لَتَرُ کَبُنَّ طَبقا عَن طَبَقِ (سورہ انشقاق:۱۹) کا ترجمہ کیا ہے: ’’یقیناًتم سوار ہوگے (سفر کے لئے) ایک زمین سے دوسری زمین کو۔‘‘ اور رائج الوقت ترجموں کو غلط قرار دیا ہے۔ یہ عجلت اور تساہل ہے۔ سورہ ملک کی آیت: اَلَّذِی خلَق سَبجعَ مسمٰوٰتِ طِباقا کا ترجمہ خود کرتے ہیں: ’’میں نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔سوچنا چاہئے لَتَرُ کَبُنَّ طَبقا عَن طبقِ جس اہتمام سے فرمایا گیا ہے اور اس کی تصدیق کے لئے شفق، رات اور ماہ کامل کو پیش کیا گیا ہے، لازماً اس کا کوئی معنی خیز مفہوم ہوگا۔وہ محض زمین کا کوئی معمولی سفر نہیں ہوگا جس کے لئے آدمی کسی سواری پر سوار ہوتا ہے۔
مترجمہ کاایک فیصلہ یہ بھی ہے کہ شرعی طورپر لونڈی سے تمتع جائز نہیں۔جنسی تعلق صرف اپنی بیویوں سے ہی قائم کیاجاسکتا ہے حالانکہ قرآن میں مومنین کے بارے میں آیا ہے: والذِینَ ھُم لِفُروجِھِم حَافِظُون، الا عَلَی ازواجشھِم او ما مَلَکَتُ ایمانھُم فانھُم غیرُ مَلُومین(مومنون: ۵۔۶) ’’اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اس کے کہ اپنی بیویوں یا باندیوں سے صحبت کریں کہ اس میں وہ قابل ملامت نہیں۔‘‘
اس آیت میں باندیوں سے تمتع جائز قرار دیا ہے۔ اگر باندیوں سے مرادمنکوحہ باندیاں ہیں توپھر وہ باندیاں کہاں رہیں پھرتو وہ ازواج یعنی بیویوں میں شامل ہیں۔ انہیں الگ سے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی۔
منظّم مفہوم القرآن کا اردواور ہندی ایڈیشن الگ الگ شائع کرنا چاہئے تھا۔ اردو والوں پر ہندی کااور ہندی داں طبقہ پر اُردو کابار بلاوجہ ڈالا گیاہے۔اردو اور ہندی دونوں کی عبارتوں میں پروف کی غلطیاں بھی رہ گئی ہیں۔ قرآن کے اس ترجمہ میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جو نظرثانی کے محتاج ہیں۔

بحیثیت مجموعی فاضل مترجم کی کاوش اور کوشش لائق تحسین ہے۔ امید ہے کہ علم دوست اور قرآنی ذوق رکھنے والے حضرات لازماً اس کے مطالعہ کے لئے وقت نکالیں گے۔ خدا مترجم کی کاوش کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور ان سے مزید اپنے دین کی خدمت کا کام لے۔ آمین۔

अज़ : मौलाना मुहम्मद फ़ारूक़

उर्दू,हिन्दी में क़ुरआन-ए-मजीद का नया तर्जुमा
मुनज़्ज़म मफ़हूम उल-क़ुरआन, क़ुरआन-ए-क्रीम का एक ख़ास किस्म का तर्जुमा है। तर्जुमा के साथ मुतर्जिम की तसरीहात भी शामिल किताब हैं जिससे इस तर्जुमा की एहमीयत बढ़ जाती है। मुतर्जिम ने किताब के शुरू में तारीख़ इस्लामी का एक जायज़ा लिया है और दिखाया है कि ये तारीख़ किस नशेब-ओ-फ़राज़ से दो-चार हुई है और इस के अस्बाब क्या रहे हैं और आज उम्मत मुस्लिमा को किन मसाइल का सामना करना पड़ रहा है। किताब हिदायत क़ुरआन-ए-करीम से हक़ीक़ी वाबस्तगी, उम्मत पर फ़र्ज़ ही नहीं है बल्कि क़ुरआन से इलमी-ओ-अमली वाबस्तगी ही उस के मसाइल का हक़ीक़ी हल भी है
मुतर्जिम मौसूफ़ के नज़दीक क़ुरआन फ़हमी के लिए ज़रूरी है कि हमें क़ुरआन के बयान पूरा एतिमाद-ओ-यक़ीन हासिल हो। क़ुरआन के मुक़ाबला में कोई दूसरी चीज़ ऐसी नहीं हो सकती जिस पर हम क़ुरआन से बढ़कर भरवा कर सकें। असल सरचश्मा इलम-ओ-दानिश क़ुरआन ही है। दूसरी चीज़ें क़ुरआन फ़हमी में मुआविन तो हो सकती हैं लेकिन उन्हें असल का दर्जा नहीं दिया जा सकता। क़ुरआन और तफ़सीरी रवायात में अगर तज़ाद पाया जाता है और ततबीक़ की कोई सूरत नहीं निकलती तो तर्जीह क़ुरआन ही को दी जाएगी। इस के इलावा क़ुरआन की किसी आयत को समझने के लिए ज़रूरी है कि इस आयत में जो मज़मून बयान हुआहै वो मज़मून अगर क़ुरआन की किसी दूसरी आयत या आयात में भी बयान हुआ है तो इस मज़मून से मुताल्लिक़ क़ुरआन की तमाम ही आयात की रोशनी में इस आयत के मफ़हूम-ओ-मअनी को मतीन करने की कोशिश करें। क़ुरआन की बाअज़ आयात, बाअज़ आयात की तफ़सीर भी करती हैं। इस उसूल को नजरअंदाज़ करना सही ना होगा। इस बुनियादी उसूल को पेश-ए-नज़र रखते हुए अगर क़ुरआन का मुताला किया जाये तो बहुत सी उलझनें या अश्कालात ख़ुदबख़ुद दूर हो सकते हैं। मुतर्जिम मौसूफ़ ने करानी आयात की तफ़सीर में ही नहीं बल्कि उन किए तर्जुमे में भी इस बुनियादी उसूल को अपने पेश-ए-नज़र रखा है। ख़ास तौरसे क़ुरआन के दो मुक़ामात जहां महिज़ लफ़्ज़ी तर्जुमे से क़ुरआन का सही मफ़हूम वाज़िह नहीं होता बल्कि अश्कालात पैदा होते हैं
मुतर्जिम ने जिस दिक़्क़त नज़री और फ़िक्र-ओ-तदब्बुर से काम लिया है इस क़ुरआन के बाअज़ मुक़ामात पर क़ुरआन के निहायत काबिल-ए-क़दर मआनी-ओ-मफ़ाहीम से हम आश्ना होते हैं। इन मफ़ाहीम-ओ-मुतालिब को तफ़रदात कह कर नजरअंदाज़ करना सही ना होगा। इन पर अह्ले इल्म को ग़ौर-ओ-फ़िक्र करके कोई राय क़ायम करनी चाहीए। इलमी तौर पर अगर क़ुरआन की किसी आयत का ऐसा मफ़हूम सामने आता है जो कलाम इलाही के शायान-ए-शान है तो उसे तस्लीम करने में ये चीज़ माने नहीं हो सकती कि ये मफ़हूम आम मित्र जमीन क़ुरआन और मुफ़स्सिरीन की राय के ख़िलाफ़ है
इस सिलसिला में कई चीज़ें हमारे सामने आएं जिन पर ग़ौर करने की ज़रूरत है। यहां सिर्फ चंद मिसालें पेश की जाती हैं
सूरा बक़रा आयत (इन अल्ॎज़ी॒न कफ़रूवा॒सौअ-ए-अलय॒हिम॒ ॎ अनज़रथुम॒ अम॒ लम॒ तुनज़िरहुम लिऐ युमिनूओन) का तर्जुमा बिलउमूम ये किया जाता है कि ’’ जिन्हों ने कुफ़्र क्या उनके लिए यकसाँ है, उन्हें डराओ या ना डराओ, वो ईमान लाने वाले नहीं हैं ‘‘ अगर ऐसा है तो फिर नबी का काम ही ख़त्म होजाता है। वो लाहासिल काम में क्यों अपना वक़्त सिर्फ़ करेगा। सही तर्जुमा ये है : ’’ जिन लोगों ने कुफ़्र किया असिन के लिए बराबर रहातम ने उन्हें ख़बरदा रकयाहवयाअनहीं ख़बरदार ना कियाहो, वो ईमान नहीं ला रहे हैं ‘‘
इस आयत में सूरत-ए-स हाल पर रोशनी डाली गई है, मुस्तक़बिल की बता नहीं की गई है। मुस्तक़बिल में तो कितने ही अफ़राद ईमान ले आए। दुनिया ने’यदख़ुलूओन फी दीन-ए-उल़्ला-ए-अफवा जा‘ का मंज़र भी देखा। आयत ’ लिम तुनज़िरहुम ‘ मैं माज़ी का सीग़ाइस्तिमाल हुआ है।मुस्तक़बिल का सीग़ा इस्तिमाल नहीं हुआ है। मित्र जमीन ने माज़ी को मुस्तक़बिल के मअनी में ले लिया जिस की वजह से इशकाल पीदाहोगयाओ मुज़ारे पर जब लिम दाख़िल होता है तो वो इसी माज़ी कर देता है, ये एक आम उसूल है
’ फ़लनववलि्इनक क़िब॒लৃु तर॒ज़ाहअ ( बक़रा : ۱۴۴ ) का तर्जुमा बिलउमूम किया जाता है : ’’ ए नबीऐ हम तुम्हारा रुख इस क़िबला की तरफ़ फेर देंगे जिसे तुम पसंद करते हो ‘‘ यानी काअबा को तुम्हारा क़िबला बनादेंगे। हालाँकि क़ुरआन में ’ क़िबलिৃु तरज़ाहअ ‘ आया है ’इला क़ब॒ल-ए-तरज़ाहअ‘ नहीं आया है। मुतर्जिम ने इस का सही तर्जुमा इन अलफ़ाज़ में किया है : ’’ पस हम ज़रूर बालज़रोर तुझे मुतवल्ली बना देंगे इस क़िबला का जिसे तू ने इख़तियार कर रखा है और तो राज़ी है ‘‘यानी काअबा को आपऐ को तोलीत में देने की बात कही गई है ना कि यहां तहवील क़िबला की ख़ुश-ख़बरी दी जा रही है
इस से पहले इस आयत में आया : ’ क़लदनरा तक़ल्लुब वज॒हिक फी अलस्समाइ ‘ ۔ इस का तर्जुमा बिलउमूम मित्र जमीन ये करते हैं कि ’’ हम आसमान की तरफ़ तुम्हारे रुख की गर्दिश देख रहे हैं ’’ मुतर्जिम के नज़दीक उस का सही तर्जुमा होगा ’’हम आसमान यानी आलम-ए-बाला मैं तुम्हारी बेक़रारी का मुशाहिदा कर रहे हैं‘‘ ( पस लाज़िमन हम काअबा को तुम्हारी तोलीत में दे देंगे।वो मुशरिकीन के क़बज़े में नहीं रहेगा )
इसी तरह फ़ाज़िल मुतर्जिम ने क़ुरआन के कितने ही मुक़ामात पर काबिल-ए-क़दर तर्जुमा किया है।इस सिलसिला में बतौर नमूना उन मुक़ामात को देखा जा सकता है। हज़रत इबराहीम अलैहिस-सलाम और आज़र का क़िस्सा सूरा आनाम आयत ७४।८३। नासिख़-ओ-मंसूख़ की बात( बक़रा : ۱۰۶ ) ۔ मुर्तद की सज़ा क़तल नहीं (अलनिसा-ए-: ۱۳۷۔۱۳۸ )، हज़रत यूनुस अलैहिस-सलाम का सही वाक़िया( साफ़ात : ۱۴۲ ) ، हज़रत ज़ीदओ के सिलसिला में सूरा एहज़न की आयत ३७ का सही मफ़हूम। सूरा आला मैं सन॒क़रिनुक फ़ला तनसाई, इलामअशाइ अल्लाह का सही मफ़हूम। फिल्म क़तलतुमूओहुम इन कुनतुम सादिक़ीन (आल-ए-इमरान: ۱۸۳ ) इस का तर्जुमा बिलउमूम ये करते हैं कि : ’’ तुमने उन्हें (अध्न्या-ए-) को क़तल क्यों किया अगर तुम सच्चे हो ‘‘۔ इस का सही मफ़हूम मुतर्जिम मौसूफ़ ने समझा है कि यहां क़तल करने से मुराद क़तल के दरपे होना है। अरबी में फे़अल इरादा-ए-फे़अल के लिए भी आता है
मुतर्जिम मौसूफ़ की काविशों पर ग़ौर करने की ज़रूरत है। मुतर्जिम ने अह्ले इल्म को दावत-ए-ग़ौरोफ़िक्र दे दी है। ग़ौरोफ़िक्र और तदब्बुर के बंद दरवाज़े को वा करने की मौसूफ़ ने जो कोशिश की है वो लायक़ तहसीन है
मुतर्जिम भी एक इन्सान हैं।वो कोई साहिब वही, नबी भी नहीं इस लिए उनकी तमाम बातों से इत्तिफ़ाक़ करना ज़रूरी नहीं है मेरे नज़दीक उनकी काविशों में ख़ूबीयों के साथ बाअज़क़ाबिल इस्लाह नक़ाइस भी पाए जाते हैं
क़ुरआन का तर्जुमा तरी अलामकान क़ुरआन के असल मतन से क़रीब रह कर करना चाहीए। तशरीही या तफ़सीरी तर्जुमा एहतियात के ख़िलाफ़ है। किसी आयत की तफ़सी रागर हमारे ज़हन में ग़लत है और हमने इस आयत का तफ़सीरी या तशरीही तर्जुमा कर दिया तो तर्जुमा ही ग़लत हो जाएगीगा। तर्जुमा तो मतन से क़रीब रह कर ही करना चाहीए। अलबत्ता उस की तफ़सीर और तशरीह हम अपनी तहक़ीक़ के मुताबिक़ कर सकते हैं। इस सूरत में अगर ग़लत होगी तो सिर्फ तफ़सीर ग़लत होगी, तर्जुमा पर आँच ना आएगी। तशरीही तर्जुमे में इस का अंदेशा बराबर रहता है कि ये तर्जुमा कहीं हमें असल क़ुरआन से दूर, बहुत दूर ना कर दे। मफ़हूम उल-क़ुरआन के नाम से ग़ुलाम अहमद परवेज़ ने भी क़ुरआन का तर्जुमा किया है। तर्जुमा में मतन से ज़्यादा उस के मफ़हूम को खोलने की कोशिश की गई है और इस में ख़ूब क़लम की जोलानी दिखाई गई है। इस का नतीजा ये हुआ कि जब हम उस का मुताला करते हैं तो क़ुरआन से ज़्यादा परवेज़ साहिब को हम पढ़ रहे होते हैं। वो अक्सर हमें क़ुरआन से क़रीब करने के बजाय दूर करते दिखाई देते हैं
मुनज़्ज़म मफ़हूम उल-क़ुरआन की इशाअत के पीछे ये ख़ाहिश कारफ़रमा रही है कि क़ुरआन का तर्जुमा पढ़ते हुए क़ारी के ज़हन में कोई इशकाल और उलझन ना पैदा हो। इमकानी अश्कालात को तर्जुमा ही के ज़रीया से दूर कर दिया जाये, लेकिन ये तरीक़ा जैसा कि हम अर्ज़ कर चुके हैं एहतियात के ख़िलाफ़ है। इस तरीक़ा को इख़तियार करने के बाजोद कितने ही मुक़ामात हैं जहां मुतर्जमा मौसूफ़ अश्कालात के रफ़ा करने में नाकाम दिखाई देते हैं। मिसाल के तौर पर जश शजर के क़रीब जाने से आदमऑ को रोका गया था,वो किया था? उनकी तौज़ीह-ओ-तशरीह के बावजूद इशकाल और उलझन दूर नहीं होती
इसी तरह आदमऑ को जिन अस्मा-ए-का इलम खुदाने अता फ़रमाया था, जिनसे फ़रिश्ते बे-ख़बर थे, उन अस्मा-ए-से मुराद किया है? मुतर्जिम ने जो कुछ इस सिलसिला में लिखा है इस से बात बनती दिखाई नहीं देती। आख़िर इस से फ़रिश्तों की खटक कैसे दूर हो गई?अगर अस्मा-ए-से मुराद चीज़ों की खासियतें ली जाएं फिर तो ये चीज़ और ख़तरनाक हो सकती है। फिर तो इन्सान बम और मिज़ाईल वग़ैरा ईजाद करके और ज़्यादा अम्न-आलम को ग़ारत करने की पोज़ीशन में हो जाएगीगा
हुरूफ़ मक़तात के बारे में मुतर्जिम की ये बात तो क़ीमती है कि हुरूफ़ मक़तात दर-हक़ीक़त शॉर्ट फ़ार्म हैं जिसका चलन जदीद दौर में भी पाया जाता है, लेकिन उनकी इतमीनान बख़श तसरीह वो नहीं कर सकते।बिलउमूम हुरूफ़ मक़तात से मुराद महमदऐ लिया है बल्कि उसे अपने तर्जुमे में शामिल करते हुए भी वो दिखाई देते हैं। उसे मुहताज़ तरीक़ा हरगिज़ नहीं कहा जा सकता

सूरत एल्मर सलात, नाज़ आत् के शुरू में जो कसमें खाई गई हैं और जिन चीज़ों को शहादत में क़ुरआन ने पेश किया है उनके ताय्युन में मुतर्जिम ने करानी नज़ाइर को बिलकुल नजरअंदाज़ कर दिया है और जो कुछ समझ में आ या बे तकल्लुफ़ लिख दिया है। ये तरीक़ा क़ाइरीन को क़ुरआन से बहुत दूर कर देगा।इस लिए हत्तलइमकान तर्जुमातशरीही नहीं होना चाहीए। तफ़सीर की शक्ल में आदमी अपनी तहक़ीक़ात और आरा पेश करसकता है और अह्ले इल्म की बाअज़ बातों से इख़तिलाफ़ भी किया जा सकता है क्योंकि इख़तिलाफ़ पर बिलकुल ही पाबंदी आइद कर दी जाये तो इलमी इर्तिक़ा रुक जाएगा
बाअज़ मुक़ामात पर मुतर्जिम ने निहायत तसाहुल से काम लिया है। मसलन ये कहना कि चूँकि मस्जिद उकसा तो मुस्लमानों की तामीरहे, मेराज के मौक़ा पर इस मस्जिद की तामीर ही नहीं हुई थी इस लिए मस्जिद उकसा से मुराद आलिम बालाई मस्जिद है जिस का ज़िक्र सूरा बनीइसराईल के शुरू में आया है। इतनी उजलत के साथ रवायात को रद्द कर देता सही नहीं। आसमानी सफ़रका मुफ़स्सिरीन भी इनकार नहीं करते। वो कहते हैं कि नबी इसराईल की पहली आयत में सफ़र मेराज के इस हिस्से का ज़िक्र कियागया है जिसका ताल्लुक़ अर्ज़ी सफ़रसे था। मस्जिद उकसा से मुराद बैतुल-मुक़द्दस है। अलज़ी इस्रा बिअबदिही लयलৃु का तर्जुमा किया है: ’’ जो ले गया एक रात अपने बंदे को ‘‘ सही तर्जुमा होगा : ’’ जो ले गया रातों रात अपने बंदे को ‘‘एक रात के लिए फी लयलৃ-ए-आता है
लतरु कबुन्ॎ तबका इन तबक-ए-( सूरा इंशिक़ाक़ : ۱۹ ) का तर्जुमा किया है : ’’ यक़ीनन तुम सवार होगे ( सफ़र के लिए ) एक ज़मीन से दूसरी ज़मीन को ‘‘और राइज-उल-वक़्त तर्जुमों को ग़लत क़रार दिया है। ये उजलत और तसाहुल है। सूरा मलिक की आयत:अल्ॎज़ी ख़ल्क़ सबजअ मसमावत-ए-तिबाक़ा का तर्जुमा ख़ुद करते हैं: ’’मैंने सात आसमान ऊपर तले बनाए।सूचना चाहीए लतरु कबुन्ॎ तबका इन तबक-ए-जिस एहतिमाम से फ़रमाया गया है और इस की तसदीक़ के लिए शफ़क़, रात और माह-ए-कामिल को पेश किया गया है, लाज़िमन उस का कोई मानी-ख़ेज़ मफ़हूम होगा।वो महिज़ ज़मीन का कोई मामूली सफ़र नहीं होगा जिसके लिए आदमी किसी सवारी पर सवार होता है
मुतर्जमा का एक फ़ैसला ये भी है कि शरई तौर पर लौंडी से तमत्तो जायज़ नहीं।जिन्सी ताल्लुक़ सिर्फ अपनी बीवीयों से ही क़ायम किया जा सकता है हालाँकि क़ुरआन में मोमिनीन के बारे में आया है :वाल्ज़-ए-यन हुम लिफ़ुरोझिइम हअफ़िज़ूओन, इल्ला अले अज़वाजशहिम ओमा मलकतु एमानहुम फ़ानहुम ग़ीरु मलूओमीन( मोमनोन : ۵۔۶ ) ’’ और जो अपनी शर्मगाहों की हिफ़ाज़त करते हैं सिवाए उस के कि अपनी बीवीयों या बांदियों से सोहबत करें कि इस में वो काबिल मलामत नहीं ‘‘
इस आयत में बांदियों से तमत्तो जायज़ क़रार दिया है। अगर बांदियों से मुराद मनकूहा   बांदियां हैं तो फिर वो बांदियां कहाँ रहें फिरतू वो अज़्वाज यानी बीवीयों में शामिल हैं। उन्हें अलग से बयान करने की ज़रूरत ना थी
मुनज़्ज़म मफ़हूम उल-क़ुरआन का उर्दू और हिन्दी ऐडीशन अलग अलग शाय करना चाहीए था। उर्दू वालों पर हिन्दी का और हिंदीदाँ तबक़ा पर उर्दू का बार बिलावजह डाला गया है।उर्दू और हिन्दी दोनों की इबारतों में प्रफ़ू की गलतीयां भी रह गई हैं। क़ुरआन के इस तर्जुमा में बहुत से मुक़ामात ऐसे हैं जो नज़रसानी के मुहताज हैं

बहैसीयत मजमूई फ़ाज़िल मुतर्जिम की काविश और कोशिश लायक़ तहसीन है। उम्मीद है कि इलमदोस्त और करानी ज़ौक़ रखने वाले हज़रात लाज़िमन उस के मुताला के लिए वक़्त निकालेंगे। ख़ुदा मुतर्जिम की काविश को शरफ़ क़बूलीयत अता फ़रमाए और उनसे मज़ीद अपने दीन की ख़िदमत का काम ले। आमीन


No comments:

Post a Comment