flipkart search bar

Wednesday, April 3, 2019

hazrat adam حضرت آدم ؑ

نحمدہٗ و نصلی علی رسولہ الکریم،اما بعد،
In Hindi
http://umarkairanvi.blogspot.com/2019/04/hazrat-adam-in-quran-in-hindi-sikandar.html
قرآن کی روشنی میں حضر ت آدم ؑ کے با رے میں لکھا جا رہاہے کہ حقیقت کیا ہے اب تک جو ہمارے سا منے آرہا ہے کیا وہ قر آن کے مطابق ہے یا نہیں ۔ اگر مطا بق ہے تو دلیل کیا ہے اور اگر نہیں تو اس کو درست کیوں نہیں کیا گیا ۔ اس وقت میرے پاس ایک کتاب ہے جس کا نام ہے ’’انوارانبیاء‘‘ادارہ تصنیف و تا لیف جو شیخ غلام علی اینڈ سنز پر نٹرز پبلشر زبک سینٹرکشمیری با زار لا ہو ر نے شا ئع کی ہے ۔ (علو ی بک ڈپو محمد علی روڈ، بمبئی)
حضرت آدم ؑ کی پیدا ئش کے با رے میں لکھا ہے ،صفحہ ۱۔ جب اللہ تبا رک و تعا لیٰ نے حضرت آدمؑ کو پیدا کرنا چا ہا تو فر شتوں سے کہا کہ میں عنقریب مٹی سے ایک مخلوق پیدا کرنے والا ہوں جسے زمین پر میری خلافت کا شرف حاصل ہوگا جو اختیار وارادے کا ما لک ہو گا ۔ میری زمین پر اسے ہر قسم کا تصرف اور اختیار ہوگا اور وہ بشر کہلا ئے گا۔ صفحہ ۔۲ عظمت آدمؑ ۔ فر شتوں نے آدمؑ کے متعلق جن خیا لات کا اظہار کیا تھا یعنی یہ کہ وہ زمین میں شروفساد اور خرا بی پھیلا ئے گا اس سے اگر چہ آدمؑ کی تحقیر مراد نہ تھی تا ہم جب حضرت آدمؑ وجود میں آگئے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فر شتوں پر اس کی بر تری اور عظمت کا اظہار کرنے کے لیے حکم دیا کہ فر شتے آدمؑ کو سجدہ کر یں ۔ صفحہ۔۵ حضرت آدم ؑ کی تعلیم۔ چو نکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو زمین میں اپنا نا ئب تجو یز فر مایا تھا ۔ اس لیے انہیں صفات الٰہیہ میں سب سے بڑی صفت علم سے نوازا اور تما م اشیاء کے نام بتائے ان کی ما ہیئت سے واقف کرایا ۔ علوم وفنون کے اسرار اور ان کی حکمتیں سکھا ئیں ۔ پھر فر شتوں کے سا منے پیش کر کے ار شاد فرمایا کہ تم ان اشیا ء کے متعلق کیا علم رکھتے ہو ؟ فرشتوں نے اپنے عجز کا اعتراف کر تے ہو ئے کہا کہ اے باری تعالیٰ ہمیں تو بس اسی قدر علم ہے جو تونے ہمیں دیا یا سکھا یا اس سے زیادہ ہم کیا جان سکتے ہیں ۔ تب اللہ نے حضرت آدم ؑ سے کہا کہ جو علم تمہیں دیا گیا ہے وہ فرشتوں پر بھی ظاہر کرو ۔ صفحہ۶۔ حضرت حوا اور قیام جنت ۔ حضرت آدم ؑ کچھ مدت تنہا زند گی بسر کرتے رہے بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے ان کی رفاقت کے لیے حضرت حوا کو پیدا کیا اور دونوں کو اجازت دی کہ وہ جنت میں رہیں سہیں اور اس کی ہر چیز سے فائدہ ا ٹھا ئیں لیکن ایک درخت کے متعلق باری تعا لیٰ نے انہیں ہدایت کر دی کہ اس کے قریب نہ جائیں ۔
صفحہ ۶۔ آدمؑ اور حوا کا جنت سے نکلنا ابلیس نے حضرت آدمؑ اور ان کی زوجہ حضرت حوا کے دل میں یہ وسو سہ پیدا کیا کہ جس درخت کے قریب جا نے سے اللہ تعالیٰ نے انہیں منع کیا ہے در اصل وہی درخت ان کی مسرت اور سر مدی آرام کا ذریعہ ہے چنا نچہ ابلیس نے بڑے حیلوں سے کام لے کر انہیں یہ باور کرا ہی دیا۔آدمؑ اور حو ا سے بہ تقا ضائے بشری بھول ہوئی اور انھوں نے اس ممنوع درخت کا پھل کھا لیا اس پر اللہ تعا لیٰ نے آدمؑ ؑ سے باز پرس کی حضرت آدمؑ نے ندامت اورشرمساری سے غلطی کا اعتراف کیا اور تو بہ استغفار کر تے ہو ئے معافی ما نگی اور در گز ر کے خوا ہشگار ہو ئے ۔ تقر یباً اسی طر ح کتاب فسانہ آدمؑ و قصص الانبیا ء وغیر ہ میں بھی لکھا ہے ۔ کتا ب انوارالانبیا ء کے اقتبا سات کے با رے میں لکھا جا رہا ہے کہ کہا ں تک حقیقت ہے ۔اس میں صفحہ ۱ پر لکھا ہے ’’جسے زمین پرمیری خلا فت کا حق حا صل ہوگا‘‘ صفحہ ۵ پر لکھا ہے’’ زمین میں اپنا نا ئب تجو یز فر ما یا تھا‘‘۔ قر آن کی رو شنی میں دیکھا جا ئے کہ خلیفہ کب اور کس کو بنا یا جاتا ہے اور خلیفہ کا مطلب کیا ہے ؟
خلیفہ کے لفظی معنی ہیں بعد میں آنے والا ۔ جا نشین ، قا ئم مقام ، نائب ، اس بارے میں مفسرین کے مختلف قول ہیں ۔ کسی کی مراد نوع انسانی ہے ۔ بعض کے نزدیک خاص آدم ہیں بعض نے یہ بیان کیا ہے کہ چونکہ زمین پر انسان سے پہلے جن آباد تھے اللہ نے ان کو ختم کر کے ان کے ظلم و عدوان کی وجہ سے ان کے بعد انسان کو آباد کیا اس لیے انسان جنوں کا خلیفہ ہے ۔ بعض کا خیال ہے کہ جنوں کو فرشتوں نے مار بھگایا تھا اور ان کے بعد زمین پر فرشتے ہی رہ رہے تھے ۔ اللہ نے ان فرشتوں کی جگہ ہی انسان کو آباد کیا اس لیے انسان فر شتوں کا خلیفہ ہے ۔ اقتباس میں لکھا ہے اللہ نے اپنا خلیفہ اور نائب بنا یا ۔ اس دنیا میں تم کو اللہ نے اپنا خلیفہ بنا یا ہے ۔ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے تمہا را فرض صر ف اتنا ہی نہیں ہے کہ اس کی بندگی کرو بلکہ یہ بھی ہے کہ اس کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مطابق کام کرو ۔ خلیفہ وہ ہے جو کسی کی ملک میں اس کی تفو یض کردہ اختیارات اس کے نائب کی حیثیت سے کرے ۔ لیکن آیات میں کو ئی لفظ بھی ان اقوال کی تا ئید نہیں کر رہا ہے ۔ اگر اللہ کا خلیفہ مراد ہوتا تو آیت میں ہوتا’’ انی جا عل فی الا رض خلیفۃ اللہ ‘‘ فرمانا کیا مشکل تھا؟ ایسا لفظ قرآن میں کہیں بھی درج نہیں ہے۔
اس میں شک نہیں کہ انسان ایک ذی شعور مخلوق ہے جسے اللہ نے دیگر مخلوقات کے مقا بلہ میں افضل و برتر بنا یا ہے اور اسے فہم و فراست ، تدبیرو حکومت جیسے فضا ئل وا ختیار ات سے نوازا ہے لیکن محض اس بنا پر انسان کو خلیفہ اللہ کہہ دینا نہا یت غیر معقول بات ہے ۔ کیوں کہ لفظ خلیفہ اگر چہ مجا زاً نا ئب کے معنی میں استعمال کر لیا جا تا ہے لیکن اس کے بنیا دی مفہوم میں کسی پیش روکی موت یا عدم موجود گی داخل ہے ۔
حضور ؐکی وفات کے بعد ابو بکرؓ خلیفتہ الر سول ہو ئے ۔ حیات میں حضورؐ جب کبھی مد ینہ سے با ہر تشریف لے جا تے تو وہ صحا بی آپ کے خلیفہ ہوتے جن کو آپ اپنا جا نشین کر جاتے ۔ حضرت مو سیؑ جب کوہ طور پر گئے تو اپنے بھا ئی ہارونؑ سے کہا کہ میری عدم موجودگی میں تم میرے خلیفہ ہو چنا نچہ ’’وقا ل موسی لا خیہ ہا رون اخلفنی من قومی ‘۔ ایک شخص نے حضرت ابوبکرؓ کو یا خلیفتہ اللہ کہہ کرپکا را تو آپ نے کہا میں اللہ کا خلیفہ نہیں ہوں بلکہ ( دنیاوی معاملہ میں) اللہ کے رسولؐ کا خلیفہ ہوں ۔( مسند احمد ،ج ا، ص ۱۰ ۔ ۱۱۔، طبقات ابن سعد ، ج ۳ ، ذکر ا بی بکرؓ )
قرآن مجید میں خلیفہ کے بارے میں کیا ہے دیکھا جا ئے ۔
سورۃ انعام(۶) آیت۱۳۳:۔ اور تمہا را رب لو گوں کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے تمہارا رب بے نیاز ہے اور مہربانی اسکا شیو ہ ہے اگر وہ چا ہے تو تم لوگون کو لے جائے اور تمہاری جگہ دوسرے جن کو چاہے (ویستخلف ) خلیفہ، جا نشین بنا ئے جس طرح اس نے تمہیں کچھ اور لوگوں کی نسل سے اٹھایا۔
سورۃ نور(۲۴)آیت۵۵:۔ اللہ نے وعدہ فر مایا ہے کہ تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کر یں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو خلیفہ بنا چکا ہے ۔
سورۃ الفرقان(۲۵)آیت۶۲:۔ وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا ( خِلّفَتًہ ) خلیفہ جا نشین بنایا۔ ہر اس شخص کے لیے نصیحت ہے جو سبق لینا چا ہے یا شکر گزار ہو نا چا ہے نشا نی ہے۔
سورۃ ص(۳۸)آیت۲۶:۔ دا ؤد ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنا یا ہے ۔ لہٰذ ا تو لوگوں کے در میان حق بات کے ساتھ حکم کر اور خواہش نفس کی پیروی نہ کر ( یعنی سلطنت میں طالوت کا اور نبوت میں حضر ت شمو ئیل کو خلیفہ بنایا )
سورۃ انعام(۶)آیت۱۶۵:۔ وہی جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنا یا ۔
سورۃ اعراف(۷)آیت۷۴:۔ یاد کرو، وہ وقت، جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمہیں ان کا جانشین خلیفہ بنایا ۔
سورۃ المومنون(۲۳)آیت۳۱:۔ ان کے بعد ہم نے ایک دوسرے دور کی قوم اٹھائی ( یعنی پہلے کو ختم کر کے دوسرے کو اس کی جگہ قائم کیا ۔
آیات بالا میں یہی ہے کہ خلیفہ جا نشین کو ئی تب ہی بنتا ہے جب پہلا غائب ہوتا ہے خوا ہ موت کی وجہ سے یا کہیں جانے کی وجہ سے اس کے علا وہ تیسری صورت نہیں ہے ۔ دن اور رات کا بھی یہی معا ملہ ہے ایک کے بعد دوسرا جا نشین خلیفہ بنے گا اگر دن قائم ہے تو رات نہیں آسکتی ہما رے یہاں جو یہ نظریہ ہے کہ زمین میں انسان اللہ کا نائب اور خلیفہ ہے قطعاً غیر اسلامی نظر یہ ہے غور کیجئے آج بھی کچھ بڑے افسروں کے نائب ہوتے ہیں اور ان نائبوں کو کچھ اختیارات دئے جاتے ہیں ان اختیارات کی حد تک وہ خود محتاز ہوتے ہیں تو کیا اللہ کو ایسے ہی جا ن لیا ہے ۔ یہ دنیا کے افسر نہ تو دور کا کچھ علم رکھتے ہیں اور نہ ہی قر یب میں دوسروں کے دلوں کا حال جانتے ہیں تو ایسی صورت میں اپنا کام چلا نے کے لیے نا ئب رکھنا پڑتا ہے مگر اللہ ان عیوب سے پاک ہے اس کو نائب یا خلیفہ کی کیا ضرورت ؟ اللہ نہ تو فوت ہوا ہے اور نہ ہی غا ئب ہوا ہے وہ زندہ ہے زندہ رہے گا ہر جگہ حاضرو ناظر ہے پھر اسے کسی نائب خلیفہ کی کیا ضرورت ۔
الغر ض ’’انی جا عل فی الا رض خلیفہ‘‘ میں نہ ’’خلیفہ الجن‘‘ مراد ہے نہ’’ خلیفہ الملا ئکہ‘‘ نہ’’خلیفہ اللہ‘‘ بلکہ یہاں خلیفہ کا صحیح مطلب وہی ہے جو حسن بصر ی اور حا فظ ابن کثیر سے منقول ہے جس کی وضاحت میں کر رہا ہوں ۔ یعنی اللہ کو موت نہیں انسان کو موت ہے یا عد م موجود گی ہے ایسی حا لت میں انسان کی جگہ دوسرا انسان خلیفہ یا جا نشین بنتا ہے ۔ اور ہر گھر میں ہوتا ہے ۔ حکومت بھی ایک گھر ہی ہے گو وہ بڑ ا گھر ہے۔ باپ کے مرنے کے بعد بیٹا اس کا جانشین خلیفہ بنتا ہے ایسے ہی بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کا و لی عہد جو زندگی میں مقرر کیا تھا اس کا خلیفہ بنتا ہے اور یہ جا نشینی ہر طرح سے ہو تی ہے خصلت صفا ت عادات علم ہنر و غیرہ جملہ شعبوں میں خلف پیش روکی طرح ہی ہوتا ہے۔شیطان نے آدمؑ و حوا کو جنت میں کس طرح سے بہکا یا اور پیدائش روایات میں حضرت آدمؑ کی بیوی خود انہیں کی ایک پسلی نکال کر بنا ئی تب آدمؑ خوش ہو گئے ۔ جنت میں داخل کرنے کے بعد آدم ؑ سے کہا ہر جگہ سے کھا نا لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا۔ تفاسیرمیں لکھا ہے یا تو وہ گندم کا درخت تھا یا انگور کا یالہسن کا تھا ۔ پھر ابلیس کو غیب داں مانا گیا ہے کہ جنت میں دا خلہ بند ہونے کے باوجود جان لیا کہ حضرت آدمؑ کو ایک درخت سے منع کیا گیا ہے۔ تب حضرت آدمؑ کو جنت سے نکلوانے کے لیے سا نپ اور مور کی مدد سے جنت کے اندر پہنچ گیا ۔ اس کی عملی صورت یہ بتائی جا تی ہے کہ ابلیس ہوا کی شکل اختیا ر کر کے سانپ کے اندر داخل ہوا ۔ مور نے سانپ کو ا ٹھا کر جنت میں پہنچا دیا اور ابلیس نے آدم ؑ کو شجر ممنوعہ کھلا دیا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ جنت میں ابلیس کا داخلہ بند تھا اور ہے۔ مگر ابلیس اللہ کے پہر ے کو توڑ کر جنت میں داخل ہو گیا اور اپنا کام کر گیا اللہ کو خبر بھی نہ ہوئی ( نعوذ)۔ اس لیے آدمؑ کو اس جنت میں نہیں رکھا گیا تھاجس میں حشر کے بعد انسان جا ئیں گے بلکہ زمین پر ہی کو ئی با غ تھا جس کو جنت کہا گیا ہے اس دنیا وی باغ میں ابلیس کا داخلہ بند نہیں ہے آتا جاتا ہے ۔ با غ کی دلیل قر آن سے پیش ہے ۔
سورۃ القلم(۶۸)آیت۱۷:۔ہم نے ان لو گو ں کی اسی طرح آزمائش کی ہے جس طرح باغ ( الجنتہ ) والوں کی آزما ئش کی تھی جب انھوں نے قسمیں کھا کھاکر کہا تھا کہ صبح ہوتے ہوتے ہم اس کا میوہ توڑ لیں گے ۔
بہت سے قرآنی وا قعات میں کا فی الجھا ؤ کر دیا گیا ہے جب کہ قرآنی آیات بڑے زور دار الفاظ میں دعویٰ کر رہی ہیں کہ ہم بہت تفصیل سے ہیں اور بہت آسان اور ہر بات کو کھول کھول کر بیان کر نے وا لی ہیں پھر یہ الجھا ؤ کیوں ؟ حقیقت میں ہم قرآن کو قرآن سے دیکھنے کے قا ئل نہیں ہیں بلکہ قرآن کو حد یث،تاریخ اور شان نزول سے دیکھنے کے قائل ہیں بس یہا ں سے دھوکا لگتا ہے ۔ مثلاً تقر یباً ہر نبی کے ذکر میں کا فی الجھا ؤ اور کتنے اختلا فات ہیں اگر بغور متن اور تصریف آیات سے دیکھا جا ئے تو بات بڑی صاف اور آسان ہے ۔ ذکر آدم سب سے پہلے جو پڑ ھنے میں آرہاہے وہ صورۃ بقر ہ میں ہے اور لکھنے کی تر یب کچھ ایسی ہے کہ جو واقعہ پہلے ہوا وہ بعد میں متصل لکھا ہے اور جو بعد میں ہوا وہ پہلے جب کے دوسری جگہ تقر یباً تر یب کے سا تھ لکھا ہے جیسے ، اعراف ، حجر ، طہ اور صورۃ ص میں وہی تر یب ہے ۔ اللہ نے فر مایا کہ میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں جب اس کو سنوار لوں وہ علم والا ہو جا ئے تو اس کے لیے ہم آہنگ ہو جا نا یعنی بر تر تسلیم کر لینا جس کو لفظ سجدہ سے منسو ب کیا ہے اور کہا کہ ہم نے پہلے آدم سے ایک عہد لیا تھا مگر وہ بھو ل گیا اور نا فرمانی کر گیا ۔ جس کا ذکر سو رۃ بقرہ میں بعد میں ہے۔
بس یہی غور کر نا تھا جو ہم نہ کر سکے اور روایات یہود تا لیمود اور اور قصہ کہنے والوں کے چکر میں آگئے اور حروف اِلاّ ۔اِذْ ۔اِذَ ۔ ثُمَّ کا صحیح مطلب بیان نہ کر سکے ۔ جس کی وجہ سے الجھا ؤ پیدا ہو گیا جو اپنی جگہ لکھا جا ئے گا۔ اللہ کو ایک مخلوق زمین پر ایسی آباد کر نی تھی جو سلف کے بعد خلف جا نشینی کے طور پر قائم ہوسکے اس سے پہلے ایسی مخلوق نہیں تھی اس کی ابتداء کر نی تھی سو اللہ نے اس کی ا بتدامٹی سے کی جس کا ذکر فرشتوں سے پہلے ہی کر دیا تھا کہ میں ایک بشر مٹی سے بنا نے والا ہوں جب اس کو علم ودانش سے سنو اردوں ،تو اس کو بر تر تسلیم کر لینا اد ھر آدم و حوا کو مٹی سے بنا کر اور اس میں جان ڈال کر ان سے کہا کہ اب تم اس پر فضا ء با غ جنت میں رہو جہاں جی چا ہے کھا ؤ مگر اس شجر کے پاس نہ جانا۔
یہ وہ زمانہ تھاجس کو سو رۃ دہر میں کہا گیا ہے کہ انسان پر ایک ایسا زمانہ گزرا ہے جب یہ کو ئی قابل ذکر چیز نہ تھا اس کو کوئی شد بد نہ تھی ایسا سمجھا جا ئے جیسے چھو ٹا بچہ ہو تا ہے اسے کچھ خبر نہیں جب جی میں آ یارو دیا جب جی میں آیا پا خا نہ پیشاب کر دیا۔ با لکل ننگا ، تا ہم یہ نہ سمجھا جا ئے کہ آدمؑ بھی بچہ تھے نہیں ،بلکہ پو رے بڑے ۔صر ف شد بد کی کمی۔ جس کو پورا کرنا اللہ کا مقصد تھا ۔ یہ وہی شروع کا زمانہ تھا جس میں اس کی ضرورت کی ہر چیزپیدا کی اور اس وقت تک پر ورش کی جب تک آدمؑ میں کا م کر نے کی صلا خیت پیدانہ ہو گئی۔ جب یہ صلا حیت آ گئی یعنی خلاف ورزی کر کے اس وسو سے سے جو شیطان نے ڈالا تھا اس شجر کو چکھ لیا فو راً ہی عقل آنی شروع ہو گئی اب ان کو علم ہو گیا کہ ہم ننگے ہیں ان کی پو شیدہ چیز اور صلا حیتیں ظا ہر ہو گئیں تب سے ہی آدم کی تشریحی زند گی کا آغا ز ہو گیا جس کا اللہ کو انتظار تھا ۔اللہ کے ہر کا م ضا بطہ کے تحت ہی ہوتے ہیں ۔ تب اللہ نے آدم سے کہا کہ اب تم اس آرام سے منتقل ہو کر محنت و مشقت وا لی جگہ میں جا ؤ اور وہاں پر میری رہنما ئی کی روشنی میں زندگی گز ارو اور علم کو ترقی دوکیوں کہ انسان کو پیدا ہی مشقت کے لیے کیا گیا ہے کہ ہم نے انسان کو مشقت میں رہنے والا بنا یا ہے ۔
اب آدمؑ کی زند گی کا تشر یحی دور شروع ہو گیا اوراس دور میں ترقی پذ یر جبلت سے کا م لے کر اپنے تصرف میں آنے وا لی اشیا ء کا نام ر کھنا شروع کر دیا اور کچھ کو اپنے قا بو میں بھی کر لیا آج بھی ہم دیکھتے ہیں جو نئی ایجاد ہو تی ہے اس کا نام بھی رکھا جاتا ہے اس کی صفات کے مطا بق ۔ بس یہی طر یقہ ازل سے ہے ابدتک رہے گا ۔اس قانو ن سے ہی آدم نے کام لیا ۔ جب یہ سب کچھ ہو گیا یعنی آدم علم وا لاہو گیاگویا اتنا علم ہوگیا کہ اس کو فر شتوں کے سا منے پیش کر دیا جا ئے اس کہنے کے مطابق جب کہا تھا کہ میں مٹی سے ایک بشر بنا والا نے ہوں جب اس کو علم سے سنوار دوں اس کی صورت بنا دوں تو ا سکو بر تر تسلیم کر لیناوہ تمہاری زیر فرمان کا ئنات سے جن پراللہ کے حکم سے تم تصرف رکھتے ہو ۔ المد برات امرا، المقسمات امراً ہو تو یہ انسان کے زیر فرمان کر دی جا ئیں گی اور وہ ان سے کام لے گا تو تم انسان کی راہ میں ما نع مت ہونا بلکہ ہر کار خیر میں انسان کی مدد کر نا جیسے میری مشیت شا مل حال ہے یہ ہے ملا ئکہ کا سجدہ۔ اسی دوران آدمؑ عیال دار بھی ہو گئے اور ان کے دو لڑکو ں میں جھگڑ اہوا ۔ایک نے دو سرے کو قتل کر دیا(مائدہ(۵)آیت۲۷تا۳۱)۔ اور بھی ایسے واقعات ہو ئے ہوں گے جنکو فرشتوں نے دیکھا تھا اور وقت آنے پر فساد وخونریزی کا ذکر کیا تھا ۔ اگر نہ دیکھتے تو ذکر کا کو ئی سوا ل ہی نہیں ہوتاکیو نکہ فرشتے غیب داں نہیں ہیں اور بظاہر اللہ نے بھی اس وجہ سے کہا تھا تم میں بعض بعض کے دشمن رہو گے اور آدم و حوانے آپس میں کسی بات پر تنازعہ (شجر ) بھی کیا تھا جس سے منع کیا تھا ۔ اتنا کام ہو نے کے بعد اس وعدے کے مطابق اللہ نے فر شتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں یعنی ایسی مخلوق جو جانشین کے طور پر آباد رہ سکے باپ کے بعد بیٹا اس کا قائم مقا م ہوتا رہے یہ خا صیت دنیا کی اور کسی مخلوق میں نہیں ہے کہ باپ کے بعد بیٹا جا نشین ہو ۔ان دوسری مخلوق میں تو یہ بھی نہیں کہ جب بچہ سمجھدار ہو اپنے ماں باپ کے ساتھ رہ سکے بس بڑا ہوا وہ اڑا یا الگ ہو گیا اور اپنی دنیا الگ بسا لی اپنے ماں باپ کی بھی پہچان نہ رہی نہ ہی ماں باپ کو علم رہا کہ کون میرا خلف ہے ۔
اس جا نشینی کے لفظ کو سن کر ہی فر شتوں نے عر ض کیا کہ اللہ یہ مخلوق زیادہ دنوں تک با قی نہ رہے گی کیونکہ یہ تو خون بہا تی ہے فساد کرتی ہے ۔ اگر اپنی عبادت کے لیے ہی بناتا ہے تو وہ ہم(تیری عبادت فرمانبرداری) کر رہے ہیں ۔ تب اللہ نے ان کے اس بھر م کوختم کر نے کے لیے کہ یہ انسان فسادی ہے یا اس کے اندر وہ صلا حیت ہے جس کی وجہ سے یہ جا نشینی کے طور پر آباد رہ سکے فر شتوں سے کہا کہ اگر تم اپنے خیال میں سچے ہو تو ان اشیا ء کے نام بتا ؤ فر شتے ان سے واقف نہیں تھے جبکہ وہ اشیاء ان کے سامنے ہی تھیں ۔مگر چونکہ فرشتوں کو ان سے کو ئی مطلب نہ تھا نہ ان سے ان کی کوئی ضرورت پوری ہوتی تھی ان کے لیے تو اللہ نے دوسرا انتظام کر رکھا تھا اس لیے نہ تو ان کے نام رکھے اور نہ ہی ان کے ہنر کا علم ہوا، اس لیے فرشتوں نے انکار کر دیا کہ اللہ! ہم کو ان کا علم نہیں، ہم کووہی علم ہے جو تو نے دیا ہے۔ جس کی ہم کو ضرورت ہے ۔
جب فر شتوں نے اپنی لا علمی کا اعتراف کر لیا تب اللہ نے آدم سے کہا کہ ان کے نام بتا ؤ تو آدم نے فوراً بتا دیئے چو نکہ آدم نے اپنی ضرورت کے تحت اس زما نے میں جس کا ذکر سورۃ دہر میں ہے اور جب اللہ نے انکو جنت سے منتقل ہونے کے بعد جہاں رکھا تھا،وحی جبلی سے، جو سر شت میں رکھی ہے ، کام لیکر ان اشیاء کے نام بھی رکھ لیے تھے اور اپنے قابو میں بھی کر لیا تھا جن سے ان کا کام تھا ۔تب فر شتوں نے اپنی لا علمی اور غلط سمجھ کا اعتراف کیا اور جا ن لیا کہ حقیقت میں انسان میں وہ صلا حیت ہے جس کی وجہ سے یہ آبا د رہ سکتاہے نسل در نسل جا نشینی کے طور پر خلیفہ بن کر۔ تب اللہ نے بشمول جنوں ، فر شتو ں اور دیگر مخلوق سے کہا کہ اس آدم کے لیے ہم آہنگ ہو جا ؤ تم سے یہ جیسے کام لے اس کے کام میں لگے رہنا ۔ یہ ہے سجدہ کا مطلب اور قرآن میں بھی اللہ نے کہا کہ ہم نے ہر چیز انسان کے لیے مسخر کر دی ہے، یعنی اس کے لیے کام کر نے کا حکم دیا انسان اپنے علم سے تقر یباً دنیا کی ہر شے سے کا م لے رہا ہے اور لیتا رہے گا ۔ مثلاً ہوا پر پرواز کر رہا ہے سمند رکا سینہ چیر کر جہازرانی کر رہا ہے اس کے اندر کی اشیاء نکال کر آسمانوں میں پرواز کر رہا ہے زمین کا سینہ چیر رہا ہے پہاڑ اس کے آگے عا جز ہیں بلا چوں و چرا اپنے اندر کی اشیا ء کو نکال کر انسا ن کے قدموں میں قربان کر رہے ہیں۔ بر ق کتنی خطرناک ہے، اس کو اس نے مسخر کر لیا ہے ۔ اور تاروں میں قید کر کے دوڑا کر بھا ری بھا ری مشینیں چلا رہا ہے اور خود آرام سے ٹھنڈی ہوا میں بیٹھا ہے اور پنکھا برق(بجلی )گھما رہی ہے کسی حیوان کو بھی نہیں چھوڑا ہا تھی ، گھوڑا بیل ، بھینس سب پر اس کا قبضہ ہے نباتات پیڑ پودوں سے جو یہ چا ہتا ہے بنا تا ہے ،گو یا بلا شر کت غیرے ہر چیز پر تصرف ہے۔ اس تصرف سے بہت نا عاقبت اندیشوں نے اللہ کا بھی انکار کر دیا اور فرشتو ں کا بھی انکار کر دیا۔ مگر یہ عقیدہ غلط ہے اللہ بھی ہے اور قرآن کی خبر کے مطا بق فر شتے بھی ہیں جو المد برات امراً ، المقسمات امراً کے طور پر کا م کر رہے ہیں۔یہ تو سجدہ رہا فر شتوں کے علا وہ کا ئنات کی ہر شے کا کہ وہ انسان کو کیسے سجدہ کر رہی ہے جو اللہ نے ان کو حکم دیا ہے ۔ اب فر شتے کیسے سجدہ کر رہے ہیں وہ دیکھ لیا جا ئے ان کا سجدہ انسان کے لیے یہ ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے مطا بق انسان کے لیے کا ئنات کی اشیا ء سے کام لینے کے لیے فضا ساز گار کریں جو انسا ن ان سے نیک کام کرنا چاہے یہ فرشتے اس میں مانع نہ ہوں بلکہ انسان کی مدد کر یں اور اللہ کے حکم کے مطا بق دنیا کے امور کی تدبیر کریں تقسیم کریں نیک بندوں کو کبھی دشمن مغلوب کرنا چا ہے تو نیک بندوں کی مدد کریں اور حفا ظت کریں یہ فرشتوں کا سجدہ ہے ۔دنیا کی ہر شے انسان کے لیے مسخر ہے مگر فر شتے مسخر نہیں ہیں بلکہ مدد گار ہیں جن آیات میں فر شتوں کو حکم دیا ہے کہ آدم کو سجدہ کر و تو وہاں پر مدد گار ہونا ہی مراد ہے نہ کہ سجدہ جو نماز میں کیا جاتا ہے ان آیتوں کو غور سے پڑ ھنا ۔
ہما رے یہاں سجدے سے مراد وہی سجدہ لیا گیا ہے جو نماز میں ہوتا ہے یعنی سر کو زمین پر ٹیک دینا عا جزی کے ساتھ اور اس کا ایک نام مفسر ین نے سجدہ تعظیمی رکھا ہے ۔ اگر یہ ٹھیک ہے تو بر یلوی حضرات ٹھیک ہیں جن کو آپ غلط بتا تے ہیں ۔وہ بھی تو مزاروں پر سجدہ کر تے ہیں جس کا نام وہ سجدہ تعظیمی رکھتے ہیں جو آپ نے فر شتوں سے کرادیا ۔ تو آپ غلط ہیں بر یلوی ٹھیک ۔مگر نہ آپ کی بات درست ہے اور نہ ہی بریلوی حضرات کی بات درست ہے سجدہ صرف اللہ کے لیے ہے پھر اللہ ہی اپنے قانون کو توڑنے کا حکم دے ؟سجدہ صرف اللہ کو ہے۔
سورۃ حٰم السجدہ(۴۱)آیت۳۷:۔رات اور دن اور سورج اور چاند اس کی نشا نیوں میں سے ہیں تم لوگ نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو بلکہ خدا ہی کو سجدہ کرو ۔ جس نے ان چیزوں کو پیدا کیاہے اگر تم کو اس کی عبا دت منظور ہے۔
اس معا ملہ میں شیطان نے سجدہ نہ کر کے کیا غلط کام کیا ؟ اگر نماز والے سجدہ کا حکم ہوتاتو شیطان ضرور سجدہ کر لیتا مگر بات دوسری ہے جو شیطان نے اپنے اعتراض میں کہی تھی کہ اللہ میں اس مٹی کے بنے انسان کو اپنے سے برتر تسلیم کیسے کر لوں کیسے اس کے زیر فر مان ہو جا ؤں جب میں اس سے اچھا ہوں بہتر ہوں ( خیر منہ ) چو نکہ مجھے آپ نے آگ سے بنا یا ہے آدم کو میرے زیر فر مان ہو نا چا ہیے شیطان کی نظر علم پر نہ تھی بلکہ ما دے پر تھی ۔ جس طرح سورۃ یو سف میں عزیز مصر کے خواب میں سات مو ٹی گا ئے ہیں پھر ان کو سات دبلی گا یوں نے کھا لیا کیا حقیقت بھی یہی ہے ہر گز نہیں بلکہ حقیقت یہ کہ پہلے سات سا لو ں میں اچھی پیدا ہو گی اور بعد کے سات سالوں میں خشک سالی رہے گی اور جوان سالوں میں بچے گا وہ ان سات سالوں میں کھا لیا جائے گا بس تھو ڑا بچے گا جس کو حضرت یو سف ؑ نے اللہ داد علم کے تحت بتایا تھا تو یہا ں بھی سجدہ صلوٰۃ و سجدہ تعظیمی نہیں ہے بلکہ بر تر تسلیم کر لینا زیر فر مان ہم آہنگ ہو جا نا ہے مسخر ہو جا نا ہے اب قرآن سے سجدے کے بارے میں دو سری آیت کو دیکھا جا ئے ۔
سو رۃ النحل( ۱۶) آیت ۴۸ :۔ کیا ان لوگوں نے اللہ کی مخلو قات میں سے ایسی چیز یں نہیں دیکھیں جنکے سا ئے دائیں سے ( با ئیں کو ) او ر با ئیں سے ( دا ئیں کو) لو ٹتے رہتے ہیں ۔ اللہ کے آگے عا جزہو کر سجد ے میں پڑے رہتے ہیں جو قا عدہ تقدیر ان کے لیے مقرر کر دیا ہے اس کے تحت ہی رہتے ہیں اپنی مر ضی سے نہیں اور آدمی ان کو اپنے کا م میں لا رہا ہے اللہ نے ان کو انسان کے کام کے لیے ہی بنا یا ہے ۔
سورۃ بقرۃ(۲)آیت۲۹:۔ اس نے تمہا رے لیے زمین کی کل کا ئنات پید ا فر ما ئی ۔
سورۃ یوسف(۱۲)آیت۴۹:۔ اور تمام جاندار جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب اللہ کے آگے سجدہ کر تے ہیں اور فر شتے بھی اور وہ ذرا غرور نہیں کر تے اور اپنے پر وردگار سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور جو ان کو ارشاد ہوتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں ۔
سورۃ حج( ۲۲) آیت ۱۸:۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ جو ( مخلوق ) آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور سورج اور چاند اور ستا رے اور پہاڑ اور درخت اور چار پا ئے اور بہت سے انسان اللہ کو سجدہ کرتے ہیں اور بہت ایسے ہیں جن پرعذاب ثابت ہو چکا ہے اور جس کو اللہ ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں بے شک اللہ جو چا ہتا ہے کرتا ہے۔
آیات بالا میں لفظ سجدہ ہے مگر کسی نے ان مخلوقات کو سجدہ کر تے نہیں دیکھا مطلب وہی ہے کہ اللہ نے جو قا نون ان کے لیے مقرر کر دیا ہے اس کے تحت ہی یہ کام کر رہے ہیں یہی ان کی صلوٰۃ ہے اور یہ انسان کو فا ئدہ دے رہے ہیں۔ آیات بالا سے سجدے والی بات کھل کر سا منے آگئی یعنی اللہ کے حکم کے مطا بق مخلوق کا کام کرنا ہی سجدہ ہے صلوٰۃ ہے اس لیے فر شتوں کا سجدہ آدم کے لیے یہ ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے مطا بق انسان کے مدد گار ہیں اگر مدد گار ہونا نہ ہوتا تو آج انسان اپنے را کٹوں کے ذریعہ نظام شمسی میں پرواز کر رہا ہے چاند اور مر یخ پر جا رہا ہے تو یقیناًفر شتے اس کو روک دیتے لیکن ایسا نہیں ہے انسان بر ابر ٹھوس دھا تو ں کو جو وزنی ہوتی ہیں اپنی عقل سے کام لیکر اس کو اڑا رہا ہے اور یہ انسان کے حکم کے مطابق رک اور چل رہے ہیں ایسے ہی حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کے لیے اللہ نے بہت سی اشیا ء مسخر ہم آہنگ کر دی تھیں اور غا لباً حضرت سلیمان نے پہلا ہوا ئی جہاز بھی بنایا تھا جس کے لیے صبح وشام ایک ایک ماہ کی مسا فت کہا ہے ۔ ایک سجدہ نماز بھی ہوتا ہے جو نماز ادا کرتے ہو ئے کیا جا تا ہے عا جز ی کے سا تھ اپنا سر زمین پر ٹیک دینا اس سجدے میں کو ئی تا ویل نہیں ہو سکتی یہ ایسے ہی کیا جا ئے گا ۔ انسان اللہ کی دیگر مخلوقات خواہ وہ جاندار ہیںیا بے جان سب سے کام لے رہا ہے اور وہ بے چوں وچرااللہ کے حکم کے مطابق انسان کے حکم کی تعمیل کر رہی ہیں یہی ان کا سجدہ ہے ۔ سجدے کے بارے میں ایک آیت قرآن پیش ہے ۔
سورۃ انشقاق(۸۴)آیت۲۱:۔وَ اِذا قرء علیہم القرآن لا یسجدون
ترجمہ:۔ اور جب ان کے لئے قرآن پڑھا جاتا ہے تو اس میں درج احکام کو تسلیم کر کے عمل کیوں نہیں کرتے؟ یعنی سجدہ کیوں نہیں کرتے۔
اس آیت میں سجدہ کا مطلب صاف ہو گیا ،یعنی تسلیم کر نا بھی سجدہ ہے۔اس لئے آدمؑ کے لئے جو سجدہ ہے وہ ان کی بات کو تسلیم کرتے ہوئے کام کرنا ہے نہ کہ نماز کی طرح سجدہ کرنا۔
اب وہ آیات لکھی جا رہی ہیں جن میں آدم کا ذکر ہے ان سے پہلے دو حرف اِذْ اور اِذَ کے بارے میں لکھا جا رہا ہے اِذْ زما نہ ما ضی کے لیے ظرف ہے اور اس کے بعدہمیشہ جملہ واقع ہوتا ہے اور کبھی لام تعلیل کے لیے بھی استعمال کیا جا تا ہے جیسے ’’ضر بت ابنی اذا سا ءْ ‘‘میں نے اپنے بیٹے کو اس لئے ما را کہ اس نے گستا خی کی تھی ۔ اِ ذَ زما نہ مستقبل کے لیے ظرف ہے اور حرف مفا جاۃ بھی ہے جیسے’’ خر جت فا ذا سد با لبا ب‘ میں نکلا تو اچا نک در وازہ پر شیر تھا ۔ اِ ذْ کے لیے یہ سمجھا جا ئے کہ ما ضی میں کو ئی کا م ہو ا اس کے جواب میں کچھ ہو رہا ہے یا کرنا چا ہتا ہے ۔ عمل رد عمل اس لیے اللہ کا پلان تھا آدم کو بنا نا اور اس کو اور اس کی نسل کو خلیفہ کے طور پر آباد کرنا اس پلان کے تحت فر شتوں سے کہا اور اذکا مطلب پھر بھی ہے جو ثم کی جگہ آتا ہے اور ثم کے بارے میں آگے لکھا جا ئے گا ۔
سو رۃ دہر( ۷۲) آیت ۱:۔ بیشک انسان پر زما نہ میں ایک ایسا زما نہ بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا ۔ سورۃ ص (۳۸) آیت ۷۱:۔ اس لیے (اذ) تمہا رے پر وردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے ایک انسان بشر بنا نے والا ہوں۔آیت ( ۷۲ ) پھر جب اس کو درست کر لو ں اور اس میں علم روح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدہ میں گر جانا یعنی اس کو بر تر تسلیم کر تے ہو ئے اس کی ہر کار خیر میں مدد کرنا جو وہ کا ئنات کی اشیاء سے لینا چا ہے ۔آیت( ۷۳ ) وقت آنے پر جب اللہ نے آدم کو فر شتوں کے سا منے پیش کیا ) تو تمام فر شتوں نے حکم کوما ن لیا (سجدہ کیا)۔آیت (۷۴) مگر شیطان اکڑبیٹھا اور کا فروں میں ہو گیا۔آیت (۷۵) اللہ نے فرمایا! اے ابلیس جس شخص کو میں نے اپنی قدرت سے بڑے اہتمام کے سا تھ بنا یا ( اس کو کافی دنوں تک علم حاصل کر نے کا مو قع دیا اور اس کی صلا حیت تجھ پر ظا ہر بھی ہو گئی اشیا ء کے نام وغیرہ بتا نے سے ) تو اس کے آگے سجدہ کر نے یعنی اس کے آگے زیر فرمان ہو نے سے تجھے کس چیز نے منع کیا ؟ کیا تو غرور میں آگیا یا اونچے درجے وا لوں میں ہے ۔آیت( ۷۶ ) بو لا کہ میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے بنایا ۔آیت (۷۷) کہا یہاں سے نکل جا تو مردوٗد ہے ( فخرج ) ۔
سورۃ الحجر( ۱۵) آیت ۲۸ :۔ ( اللہ کا جو منصو بہ تھا ) اس لیے تمہا رے پر وردگار نے فر شتوں سے فر ما یا کہ میں کھنکھا تے سڑ ے گارے سے ایک بشر بنا نے وا لا ہوں۔آیت (۲۹) پھر جب اس کو علم سے سیدھا کر لو ں اور اس میں علم کی صلا حیت پیدا ہو جا ئے تو میرے حکم کے مطا بق اس کے ساتھ ہم آہنگ ہو جا نا اس کو بر تر تسلیم کر لینا ۔ آیت(۳۰) وقت آنے پرفر شتے تو سب کے سب سجدے میں گر پڑے یعنی آدم کی صلا حیت اور جا نشینی کے طور پر آباد رہنے کی حکمت کو تسلیم کرتے ہوئے بر تر تسلیم کر لیا اور اس کے مددگار بن گئے ۔آیت(۳۱ ) مگر شیطان کہ اس نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کر دیا ۔آیت( ۳۲) اللہ نے فرمایا کہ ابلیس !تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے وا لوں میں شامل نہ ہوا ۔ آیت(۳۳) ابلیس نے کہا میں ایسا ( کمتر) نہیں ہوں کہ بشر جس کو تو نے کھنکھا تے سڑے ہوئے گا رے سے بنا یا ہے، سجدہ کرو ں، یعنی اس کو اپنے سے بر تر تسلیم کر کے اس کے تا بع فر مان ہو جا ؤ ں ۔آیت( ۳۴ ) اللہ نے فرمایا یہاں سے نکل جا تو مردود ہے ۔
سورۃ طہ( ۲۰) آیت ۱۱۵:۔ اور ہم نے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ (اسے) بھول گیا ۔ اور ہم نے ان میں صبرو ثبات نہ دیکھا ۔آیت( ۱۱۶) اس زمانہ اور متصل زمانہ میں آدم نے جو علم حا صل کیا اور تر قی کی اور وہ دا نش آ گئی جو اللہ چا ہتا تھا ) اس وجہ سے ( وقت آنے پر اللہ نے کہا ) ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے لیے سجدہ کرو ( یعنی ہم آہنگ ہو جا ؤ تمہا ری زیر فر مان مخلوق سے جو یہ کام لے اس میں مانع نہ ہونا بلکہ ہر کار خیر میں اس کی مدد کر نا ) تو سب نے حکم مانا مگر ابلیس نے انکار کیا ۔ آیت(۱۱۷)( آیت ( ۱۱۵) میں جس بات کا ذکر ہے کہ عہد لیا تھا تو آدم بھول گیا آیت ۱۱۷میں اس کا ہی ذکر کیا ہے ) ہم نے فرمایا کہ آدم یہ تمہا را اور تمہا ری بیوی کا دشمن ہے تو یہ کہیں تم دونوں کو جنت سے نکلوا نہ دے پھر تم تکلیف میں پڑ جا ؤ ۔آیت (۱۱۸) یہاں تم کو ( آسا ئش ہے ) نہ بھو کے رہو گے نہ ننگے ۔ آیت(۱۱۹) اوریہ کہ نہ پیا سے رہو گے اور نہ دھوپ کھا ؤ گے۔ آیت(۱۲۰) تو شیطان نے ان کے دل میں وسو سہ ڈالا اور کہا کہ آدم بھلا تم کومیں ( ایسا شجر بتا ؤں ( جو ) ہمیشہ کی زندگی کا( ثمرہ دے ) اور ایسی ) بادشا ہت کہ کبھی زا ئل نہ ہو۔آیت (۱۲۱)تو دونوں نے اس شجر کی آزما ئش کر لی تو ان پر ان کی پو شیدہ صلا حیتیں اور شر مگا ہیں ظاہر ہو گئیں اوروہ اپنے اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے اور آدم نے اپنے پر ور دگار کے (حکم کے) خلاف کیاتو وہ اپنے مطلوب سے ) بے راہ ہو گئے۔آیت (۱۲۲ ) پھر ان کے پر ور دگا ر نے ان کو نوازا تو ان پر مہر با نی سے تو جہ فر ما ئی اور سید ھی راہ بتا ئی ۔آیت(۱۲۳ ) خطا کومعاف کرکے فر مایا کہ تم دونوں یہاں سے نیچے اتر جا ؤ تم میں بعض، بعض کے دشمن ہو ں گے پھر اگر میری طر ف سے تمہارے پاس ہدایت آئے تو جو شخص میری ہدایت کی پیر وی کر لے گا وہ نہ گمر اہ ہو گا اور نہ تکلیف میں پڑے گا ۔آیت(۱۲۴ ) اور جو میری نصیحت سے منھ پھیر یگا اس کی زندگی تنگ ہو جا ئے گی اور قیا مت کو ہم اسے اندھا کر کے اٹھا ئیں گے ۔
سورۃ الکہف( ۱۸) آیت ۵۰ :۔ اس وجہ سے اس لیے ہم نے فر شتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ، یعنی برتر تسلیم کرو۔اس کی صلا حیت کی وجہ سے سب نے حکم مانا مگر ابلیس نے نہ مانا کیوں کہ وہ جنات میں سے تھا وہ اپنے رب کے حکم سے باہر ہو گیا ۔کیا تم اس کو اوراس کی ذریت کو میرے سو ا دوست بناتے ہو حا لا نکہ وہ تمہا رے دشمن ہیں اور ظا لموں کے لیے برا بدل ہے۔
سو رۃ الا سرا (۱۷) آیت ۶۱ :۔ اس لیے ( جو وجہ پیچھے بتا ئی گئی ہے ) ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کی بز رگی تسلیم کرو تو سب نے حکم مانا مگر ابلیس نے نہ مانا بولا کہ بھلا میں ایسے شخص کو سجدہ کرو ں ۔ زیر فرمان ہو جا ؤ ں جس کو تونے مٹی سے پیدا کیا ہے۔آیت (۶۲) اور( ازراہِ طنز ) کہنے لگا کہ د یکھو تو یہی وہ ہے جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے اگر تو مجھے قیا مت کے دن تک کی مہلت د ے تو تھو ڑ ے سے شخصو ں کے علا وہ اس کی اولاد کی جڑ کا ٹتا رہو ں گا ۔آیت( ۶۳) اللہ نے فر ما یا چلا جا جو شخص ان میں سے تیری پیروی کر یگا تو تم سب کی جزا جہنم ہے اور پو ری سزا ۔
سو رۃ الا عراف (۷) آیت ۱۱:۔ ہم نے تمہا ری تخلیق کی ابتدا کی پھر تمہا ری صورت بنا ئی پھر فر شتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو ( یعنی آدم کی بر تری تسلیم کرو اس کے طا بع فر مان ہو جا ؤ ) اس حکم کو سب نے تسلیم کیا مگر ابلیس حکم ماننے والوں میں شا مل نہ ہوا۔ پھر تر قی پذ یر خصو صیا ت کا حامل وجود بنا یا انسان کے پید ائش کے سا تھ ہی اللہ نے اس کی شر شت میں سب خصو صیات رکھ دی جو اس کا فر ض ہے یا جو وہ کر سکتا ہے ۔ اور اس میں وہ وقت کے ساتھ تر قی کر رہا ہے اور روز نئی نئی ایجاد کر کے ان کی صفات کے مطا بق ان کے نام بھی رکھ رہا ہے کو ئی چیز سامنے ہے اس کو اس کی صفات کے مطا بق کام میں لا ئیں ۔ اور اس کا نام نہ ہو تو یہ عقل مندی کا کام نہیں ہے بلکہ عقل مندی یہ ہے کہ ان کا نام بھی ہوجو رکھا جا رہا ہے بسی یہی بات تھی جس سے کام لے کر آدم ؑ نے اشیا ء کے نام رکھے تھے اور فر شتے اس کام کو کر نے سے مجبور تھے ۔سورۃ اعرا ف آیت۱۱ میں اللہ نے انسان کی پیدا ئش کا طر یقہ بتا یا ہے اور اپنی عنا یات جو کی ہیں آیت میں حروف ثم ہے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو کام ما ضی میں ہوا یا اب ہوا، اس سے تعلق رکھنے والا کام جب ثم کے بعد ہوتا ہے تو وہ فوراً ہی نہیں ہوتا بلکہ بیچ میں کچھ وقفہ ہوتا ہے وقفہ کا دورا نیہ کام کی نو عیت کے حساب سے کم زیادہ ہو سکتا ہے اس تخلیق اور صورت بنا نے میں کا فی عر صہ ہے ایک دو منٹ یا ایک دو دن نہیں ہے اس طرح فر شتوں کے سامنے بھی فوراً پیش نہیں کیا گیابلکہ صورت بننے یعنی علم آنے میں جتنا وقت لگااس کے بعد پیش کیا گیا ثم کا مطلب دیکھنے کے لیے (دیکھوآیات۲:۲۸،۶:۶۰۔۶۱۔۶۲،۲۳:۱۳تا۱۶) ۔
سورۃ اعراف(۷) آیت۱۲:۔ میں ابلیس کے حکم نہ ماننے پر ،پو چھا! تجھے کس چیز نے سجدہ کر نے سے روکا جب کہ میں نے تجھے حکم دیا تھا ۔بو لا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے ۔ نوٹ آیت میں ( خیر منہ ) یعنی میں اس سے بہتر ہوں پھر آدم کو برتر تسلیم کیوں کروں بات بر تر کی تھی ۔
سورۃ اعراف(۷) آیت۱۳:۔ فر مایا اچھا تو یہاں سے جا تجھے حق نہیں کہ یہا ں بڑائی گھمنڈ کرے ۔نکل جا کہ در حقیقت تو ان میں سے ہے جو خود اپنی ذلت چا ہتے ہیں ۔
سورۃ اعراف(۷) آیت۱۴:۔ بو لا مجھے اس دن تک مہلت دے جب کہ یہ سب دو با رہ اٹھا ئے جا ئیں گے۔ سورۃ اعراف(۷) آیت۱۵:۔ فر مایا تجھے مہلت ہے۔
سورۃ اعراف(۷) آیت۱۶:۔ بولا اچھا تو جس طرح تو نے یعنی تیرے قانون نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے میں بھی تیرے سیدھے رستے پر ان ( کو گمراہ کرنے ) کے لیے بیٹھو ں گا۔
سورۃ اعراف(۷) آیت۱۷:۔ پھر ان کے آگے سے اور پیچھے سے اور دا ئیں سے با ئیں سے آؤں گا اور ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پا ئے گا ۔
سورۃ اعراف(۷) آیت۱۸:۔( اللہ نے) فر مایا نکل جا یہاں سے ( تنہا) پا جی مر دود، جو لوگ ان میں سے تیری پیر وی کر یں گے، میں ان سب سے جہنم کو بھردوں گا۔
اس واقعہ کے بعد پھر آدمؑ کی پید ائش کے فوراً بعدکا وقعہ آگیا جیسا کہ سورۃ بقر ہ میں بھی ایسے ہی لکھا ہے یعنی جو واقعہ پہلے ہوا وہ بعد میں ا ورجو بعد میں ہوا وہ پہلے ۔ چو نکہ قرآن میں یہی تر تیب ہے اور قرآن میں سورتوں کے لکھنے میں بھی یہی اسلوب ہے ۔ یعنی سورۃ بقرہ مدینہ میں نازل ہو ئی لیکن لکھنے اور پڑھنے میں نمبر ۲ پر ہے اور مکی سورتیں بعد میں ہیں ۔
سورۃ اعراف(۷) آیت۱۹:۔اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو سہو اور جہا ں سے چا ہو نوش جان کرومگر اس شجر کے پاس نہ جا نا،ور نہ گنہگار ہو جا ؤ گے ۔
سورۃ اعراف(۷) آیت۲۰:۔ تو شیطان دونوں کو بہکانے لگا تا کہ ان کے ستر کی چیز یں جو ان سے پو شیدہ تھیں کھول دے اور کہنے لگا کہ تم کو تمہارے پر وردگا ر نے اس شجر سے اس لیے منع کیا ہے کہ تم فر شتے نہ بن جا ؤ یا ہمیشہ جیتے نہ رہو۔
سورۃ اعراف(۷) آیت۲۱:۔ اور ان سے قسم کھا کر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔
سورۃ اعراف(۷) آیت۲۲:۔ غرض دھوکا دے کر ان دونوں کو ( معصیت کی) طرف کھینچ ہی لیا جب انھوں نے اس شجر کا تجر بہ کر لیا تو ان کی پو شیدہ چیزیں کھل گئیں اور وہ جنت کے پتے اپنے او پر چپکانے لگے تب ان کے پر وردگا ر نے ان کو پکا را کیا میں نے تم کو اس شجرسے منع نہیں کیا تھا اور بتا نہیں دیا تھا کہ شیطان تمہا را کھلم کھلا دشمن ہے ۔
نوٹ:۔ اس شجر کے کھا نے سے ستر کے کھلنے کا مطلب یہ ہوا کہ جس وقت کا اللہ کو انتظار تھا یعنی عیش کی زندگی سے گز رکر اب اپنے بل بو تے پر اپنے کھا نے پینے کا انتظام خود کرنے کے لا ئق ہو جا ئیں ۔ اب انکو اچھے برے کا احساس ہو نے لگا گو یا بلو غ کو پہنچ گئے ۔ اور اب آدم کی تشریحی زندگی کا آغاز ہو گیا ۔ ستر کا کھلنا اور اس کا احساس ہو ناہی آغاز تھاتب اللہ نے ان کو اس آرام سے منتقل کر کے میدان عمل میں سر گرم کر دیاجہا ں وہ ترقی کر کے اس مقام کے حق دار بنے جو اللہ چا ہتا تھا ۔
سورۃ اعراف(۷) آیت۲۳:۔ دونوں عر ض کرنے لگے کہ پر ور دگار ہم نے اپنی جا نوں پر ظلم کیا ہے اور اگر تو نے ہمیں بخشا نہیں ہوتا اور ہم پر رحم نہیں کیا ہوتا تو ہم تباہ ہو جاتے۔اب بھی ہماری مغفرت کر اور ہم پر رحم کر ۔
سورۃ اعراف(۷) آیت۲۴:۔ ( اللہ نے ) فر مایا تم سب جنت سے منتقل ہو جا ؤ تم ایک دو سرے کے دشمن ہو اور تمہا رے لیے ایک وقت تک زمین پر ٹھکا نا ہے اور سا مان ہے۔
سورۃ اعراف(۷) آیت۲۵:۔کہا کہ اس میں تمہا را جینا ہو گا اور اس میں مرنا اور اسی میں سے نکا لے جا ؤگے ۔
اب وہ آیات لکھی جا رہی ہیں جو قرآن میں وا قعہ آدمؑ کی جانکاری سب سے پہلے دیتی ہیں ۔یعنی بقرہ کی آیات، جن میں تر تیب کچھ ایسی ہے کہ جو وا قعہ پہلے ہو ا وہ بعد میں لکھا ہے اور جو بعد میں ہوا وہ پہلے لکھا ہے۔ ان کو پڑ ھنے سے پہلے حرف اِذْ ، اِذَ اور ثم کو غور سے دیکھنا پڑے گا تب آیات کا مطلب صاف ہو گا اللہ نے اپنے پلان کے تحت ہی کام کیا اور ایسے ہی اچا نک نہیں کیا ۔؟ پہلے اور بعد جو میں نے اوپر لکھا ہے اور اس کی ایک دلیل آیت میں موجو د ہے لیکن یہ تب ہی نظر آئے گی جب ہم تد بر کریں گے ۔ یعنی آدمؑ و حوا کو اپنا بھی ہوش نہیں تھا کہ ہم ننگے ہیں اور کہا ںیہ کمال کہ جس چیز کو فر شتے نہ بتا سکے یعنی اشیاء کے نام اور آدمؑ نے اللہ کے حکم کے مطا بق فوراً ہی بتا دئے ۔ بات صاف ہو گئی یا نہیں کہ اللہ نے پیدا کرتے ہی فر شتوں کے سا منے پیش نہیں کیا بلکہ مختلف جگہ میں رکھ کر آدم ؑ کی صورت بنا ئی تب فر شتوں کے سا منے پیش کیا ۔
سورۃبقرہ( ۲) آیت۳۰:۔ اور اس وقت کا تصور کرو جب جو پلان تھا اس پر مکمل ہو گیا میدان عمل میں سر گرم رہ کر آدم نے علم حاصل کر لیا ) اس لیے تمہا رے رب نے فر شتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں خلیفہ بنا نے والا ہوں ۔ انھو ں نے عر ض کیا کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کر نے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگا ڑ دیگا۔اور خونر یز یاں کریگا ؟ آپ کی حمد ثنا کے سا تھ تسبیح اور آپ کی تقد یس تو ہم کر ہی رہے ہیں فرمایا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔
سورۃبقرہ( ۲) آیت۳۱:۔ اللہ نے آدم کو ہر چیز کا نام صفات و خواص جا ننے کے لیے علم عطا کر دیا پھر ( عر صے کے بعد جب آدم نے یہ نام جا ننے کا کام کر لیا) تب انہیں فر شتوں کے سا منے پیش کیا اور فر ما یا ۔ اگر تمہا را خیال درست ہے ( کہ کسی خلیفہ کے تقر رسے انتظام بگڑ جا ئیگا ) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتا ؤ ۔
سورۃبقرہ( ۲) آیت۳۲:۔ انھوں نے عرض کیا کہ نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہی جتنا آپ نے ہم کو دیا ہے ۔ حقیقت میں سب کچھ جا ننے اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں ۔
سورۃبقرہ( ۲) آیت۳۳:۔ پھر اللہ نے آدم سے کہا تم انہیں ان چیزوں کے نام بتا ؤ آدم نے ان کو ان اشیا ء کے نام بتا دئے تو اللہ نے فرمایا میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانو ں اور زمین کی وہ سا ری حقیقتیں جا نتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں۔ جو کچھ تم ظا ہر کر تے ہووہ بھی معلوم ہے ۔ اور جو کچھ تم چھپا تے ہو اسے بھی جا نتا ہوں ۔
سورۃبقرہ( ۲) آیت۳۴:۔ (آدم ؑ کے علم کا مشاہدہ کر نے کے بعد جب فر شتوں کویہ یقین ہو گیا کہ واقعی یہ انسان اس لا ئق ہے کہ زمین میں جا نشینی کے طور پر آباد رہ سکتا ہے تو) اللہ نے فر مایا ! ہم نے فر شتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھک جا ؤ ( یعنی اس کی کرامت بز رگی کا اعتراف کر تے ہوئے اس کے مدد گار بنو ہم آہنگ ہو جاؤ ۔ تو سب نے آدم کی بر تری کو تسلیم کر لیا مگر ابلیس نے انکار کیا وہ اپنی بڑ ائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا ۔
با لا واقعہ سے پہلے اللہ نے آدمؑ وحوا کو مٹی سے پیدا کر کے اس کی پر ورش اور تر بیت کے لیے ایک باغ میں رکھا جس کو جنت کہا جاتا ہے مثال کے طور پر جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو پیدا ہوتے ہی خود کفیل نہیں ہوتا بلکہ اس بچے کے والدین اس کی ضروریات کا انتظام کر تے ہیں اور ا سکی پر ورش تر بیت بڑے پیا رو شفقت کے ساتھ کر تے ہیں اس کے ہر دکھ درد کا خیال رکھتے ہیں ہر نشیب و فراز سے واقف کرا تے ہیں کیا اس کے لیے اچھا ہے کیا برا ہے سب بتا تے ہیں ۔ جب ایک انسان اتنا کام کر تا ہے تو پھر اللہ آدم کو پیدا کر کے کسی جنگل میں بغیر کسی سر پر ستی کے ایسے ہی بھٹکنے کو چھوڑ دیتا ؟ ہر گز نہیں بلکہ اللہ نے آدم کو جس مقام پر فا ئز کر نے کے لیے پیدا کیا تھا جس کا ذکر فر شتوں سے کیاتھا۔ اس لا ئق بنا نے کے لیے آدم و حوا کو ایک ایسی جنت میں رکھا جہاں اس کی ہر ضرورت کا انتظام کیا گیا تھا سب چھوٹ تھی صرف ایک کام کے نہ کر نے کو کہا تھا جس کا ذکر آیت ذیل میں کیا جا رہا ہے ۔
سورۃ بقرۃ(۲)آیت ۳۵:۔ ( آدم وحوا کو پیدا کر کے اللہ نے فرمایا ) ہم نے آدم سے کہا کہ تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور یہا ں بفراغت جو چا ہو کھا ؤ مگر اس شجر کا رخ نہ کر نا ورنہ ظا لمو ں میں شمار ہو گا ۔
سورۃ بقرۃ(۲)آیت۳۶:۔ آخر کار شیطان نے ان دونوں کو وہاں سے پھسلا دیا اور ہما رے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اس حا لت سے نکلو ا کر چھو ڑا جس میں وہ تھے ۔(اس نا فرما نی پر ) ہم نے حکم دیا کہ اب تم یہا ں سے منتقل ہو جا ؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں مقرر ہ وقت تک زمین میں ٹھہر نا اور وہیں گز ر بسر کر نا ہے۔ اس حکم کے بعد آدم کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور نادم ہو کر اللہ سے معا فی ما نگی آیت ذیل میں وہی ذکر ہے ۔
سورۃ بقرۃ( ۲)آیت ۳۷:۔ اس وقت آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کرتو بہ کی جس کو اس کے رب نے قبو ل کر لیا کیوں کہ وہ بڑا معاف کر نے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔
آدمؑ نے جب معا فی ما نگی تو اللہ نے آدمؑ کا قصور تو معاف کر دیا مگر جوحکم منتقل ہونے کا دیا تھا وہ با قی رہا اس کو منسوخ نہیں کیا ؟ اس لیے کہ اب آدمؑ کے اندر اتنی صلا حیت اور عقل آگئی تھی کہ اس سے کام لیکر وہ میدان عمل میں8 سر گرم ہو جا ئے اور اپنی اللہ داد صلا حیت سے وہ کام کر ے جس کو اللہ چا ہتا ہے اور کا ئنات کی اشیاء جو اللہ نے انسان کے لیے مسخر کر دی ہیں ان سے کام لے جس کو اللہ نے سجدے سے منسو ب کیا ہے یعنی اللہ کے قا نون حکم کے مطا بق کام کر نا اور وہ کا م ہے انسان کے لیے مسخر ہو نا(یعنی بغیر کسی اجرت کے بیگار میں لگ جانا) ۔ اس معافی کے بعد اللہ نے پھر اپنے پہلے حکم کو بر قرار رکھتے ہو ئے آدم کو مکرر حکم دیا ۔ جو نیچے لکھا جا ئے گا پہلے مسخر والی آیات لکھی جا رہی ہیں۔
سورۃ بقرۃ(۲)آیت ۲۹:۔ وہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں تمہا رے لیے پیدا کیں پھر آسمانوں کی طرف متو جہ ہوا تو انکو ٹھیک سات آسمان بنا دیا ۔ اور وہ ہر چیز سے خبر دار ہے ۔
سورۃ(۳۱) آیت ۲۰:۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے سب خدا نے تمہا رے قابو میں کر دیا ہے یعنی مسخر کر دیا ہے۔ اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پو ری کر دی ہیں ۔
سورۃ( ۳۱) آیت ۲۹:۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ خدا ہی رات کو دن میں داخل کر تا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو تمہا رے زیر فرمان کر رکھا ہے( یعنی مسخر) ۔ ہر ایک ایک وقت مقرر تک چل رہا ہے اور یہ کہ اللہ تمہا رے سب اعمال سے خبر دار ہے ۔
سورۃ( ۴۵)آیت ۱۳:۔ اور جو کچھ آسما نوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنے حکم سے (اللہ نے ) تمہا رے کام میں لگا دیا ہے جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لیے اس میں نشا نیا ں ہیں۔
سورۃ(۳۸) آیت ۱۸:۔ ہم نے پہا ڑو ں کو ان کے زیر فرمان کر دیا تھا کہ صبح اور شام ان کے ساتھ ذکر کرتے تھے ۔
سورۃ(۳۸)آیت۱۹ :۔اور پر ندوں کو بھی، کہ جمع رہتے تھے۔ سب ان کے فرما نبردار تھے ۔
غا لباً سجد ے وا لی آیات اور مسخر والی آیات کو پڑھنے کے بعد ہم ضرور جا ن گئے ہوں گے کہ سجدہ کا مطلب کیا ہے ۔ جو اللہ نے فر شتوں اور دوسری مخلوق سے آدم ؑ کے لیے کرا دیا تھا ۔
سورہ بقرۃ(۲) آیت۳۸:۔ ہم نے کہا تم سب یہاں سے منتقل ہو جا ؤ،پھر جو میری طر ف سے کو ئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کر یں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔
سورہ بقرۃ(۲) آیت۳۹:۔ اور جو اس کو قبول کر نے سے انکار کر یں گے اور ہماری آیات کو جھٹلا ئیں گے وہ آگ میں جا نے وا لے ہیں ۔ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔
ہبوط کے حکم مکرر کو ایسے سمجھا جا ئے ایک عدالت نے ایک مقدمے میں دو حکم دئے ۔ (۱) دو سال کی سزااور (۲) دو ہزار رو پیہ جر مانہ،مجرم نے اپیل کی ،اپیل میں دو سال کی سزا معاف ہو گئی اور وہ جر ما نہ با قی رہا تو عدالت یہی حکم لکھے گی کہ سزا تو معا ف کی جا تی ہے مگر جر ما نہ با قی رہتا ہے وہ ادا کرنا پڑے گا۔ بس یہی قرینہ ان آیات میں ہے۔ دو بار جو منتقل ہونے کا حکم ہے ایک معافی ما نگنے سے پہلے اور ایک معاف کر نے بعد،تو اللہ نے آدمؑ کو معاف توکر دیا مگر منتقل ہو نے کو بر قرار رکھا کیوں کہ منتقل ہو نے میں ہی آدمؑ کی تر قی کا راز تھا۔ جیسے حضرت یو سفؑ کا واقعہ ہے کہ بھا ئیوں کے حسد نے ہی ان کو مصر کا حا کم بنا دیا نہ بھا ئی کنویں میں ڈالتے اور نہ یوسف ؑ مصر پہنچتے ۔ یہ سب اللہ کی کار فر ما ئی ہیں۔ مشیت اللہ کی ہے اور کر تے ہیں انسان۔ اللہ نے منتقل کر کے آدمؑ کو میدان عمل میں سر گرم کر دیا اور وہا ں انھو ں نے اشیا ء کے نام وغیرہ رکھے جو ان کو ضرورت تھی ۔ ہبوط کا مطلب دو سروں نے نیچے اتر نا لکھا ہے جو غلط ہے میں نے اس لفط کا تر جمہ منتقل ہو نا لکھا ہے اس کی دلیل قر آن ہی ہے:۔
سورۃ بقرۃ(۲) آیت ۶۱:۔ اور جب تم نے کہا کہ مو سیٰ ! ہم سے ایک کھا نے پر صبر نہیں ہو سکتا تو اپنے پر ور گار سے دعا کر کہ تر کا ری اور ککڑی اور گیہو ں اور مسور اور پیاز جو نباتات زمین سے اگتی ہیں ہما رے لیے پیدا کر دے ۔ انھوں نے کہا کہ بھلا عمدہ چیز یں چھو ڑ کر ان کے بدلے نا قص چیز یں کیو ں چا ہتے ہو ۔ تو کسی شہر میں جابسو منتقل ہو جا ؤ (اہبطو مصراً )جو ما نگتے ہو وہاں مل جا ئے گا۔
دیکھئے آیت میں لفظ اہبطو ا ہے۔کیا بنی اسرائیل آسمانی جنت یا آسمان میں تھے، جن کو نیچے اترنے کو کہا ہے، نہیں بلکہ اس جگہ سے جہاں یہ چیزیں بغیر مشقت مل رہی تھیں اس جگہ سے دور ہونے کو کہا، جس کے لئے لفظ اہبطوا آیا ہے۔ بس یہی بات آدمؑ کے لیے ہے اوپر سے نیچے نہیں بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر نے کو ہبوط کا لفظ بو لا ہے ۔
تقر یباً را ئج الو قت سب ترجموں میں جو میری نظر سے گز رے ہیں لفظ شجرہ کا مطلب در خت لکھا ہے اور میں نے در خت نہ لکھتے ہو ئے شجر ہی لکھا ہے ۔ مجھے در خت کا مطلب لکھنے میں کچھ الجھن ہو رہی ہے ۔ اس لیے کہ قر آن تصریف آیات سے اپنا مقصد مطلب صاف صاف بیا ن کر دیتا ہے تو یقیناًاس لفظ کو بھی صاف کیاہوگا دیکھا جا ئے :۔
سو رہ نبی اسرائیل ۱۷۔آیت ۶۰ :۔یاد کرو اے نبی ! ہم نے تم سے کہہ دیا تھا کہ تیرے رب نے ان لو گوں کو گھیر رکھا ہے ۔ اور یہ جو کچھ ہم نے تمہیں دکھا یا ہے اس کو اورشجرہ کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے شجرۃ الملعونتہ فی القرآن ہم نے ان لوگوں کے لیے بس ایک فتنہ بنا کررکھ د یاہے ۔ہم انہیں تنبیہ پر تنبیہ کیے جا رہے ہیں مگر ہر تنبیہ ان کی سر کشی میں اضا فہ کیے جا تی ہے ۔
سورۃنساء(۴) آیت ۶۵:۔ اے محمدؐ !تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں (شجر بینہم) میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں(ثم) پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر تسلیم خم کر لیں۔(اس آیت میں شجرہ کا مطلب تنازعہ،جھگڑا میں آتاہے)
سورۃآل عمران(۳) آیت ۱۰۳:۔ اور سب مل کر اللہ کی رسی کو یعنی کتاب کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا۔ اور اللہ کی مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گھڑے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ تم کو اپنی آیات کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
سو رۃ انعا م( ۶)آیت ۲۰ :۔ جن لو گوں نے اپنے دین میں اختلاف کر کے بہت سے را ستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہو گئے ۔ تو اے محمد ان سے تم کو کچھ کام نہیں ان کا کام اللہ کے حو ا لے پھر جو جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ ان کو بتا دے گا ۔
سورۃ روم (۳۰) آیت ۳۰ ۔ ۳۱:۔ مو منو ! اسی کی طر ف رجو ع کیے رہو اور اس سے ڈرتے رہو اور نماز پڑ ھتے رہو اور مشر کوں میں نہ ہو نا ۔ ان لوگوں میں جنھو ں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور فر قے فر قے ہو گئے۔ سب فرقے اسی سے خوش ہیں جوان کے پاس ہے ۔
قرآن میں جھو ٹ پر لعنت ہے فسق پر لعنت ہے قتل کفر اختلافات پر لعنت ہے ۔ لغت میں شجر کا ایک مطلب مختلف فیہ ہو نا جھگڑا کرنا بھی ہے اب دیکھا جائے سورۃ بنی اسرائیل (۱۷) آیت ۶۰ میں کیا تر جمہ کر رکھا ہے ۔ اس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے قرآن میں لعنت اللہ کی نا فر ما نی پر کی گئی ہے اور نا فرما نی وہ کر تا ہے جس میں نا فرما نی کر نے کی حس ہو مگر درخت میں ایسی کو ئی حس نہیں جس سے نا فر ما نی کر سکے وہ تو اللہ کے حکم کے مطا بق اگتا ہے بڑا ہو تا ہے ۔ اور اپنی زندگی کو پوری کر دیتا ہے ۔ اور اس زندگی میں انسان کو اور دو سرے حیو ا نا ت کو فا ئدہ پہنچا تا ہے دنیا میں کسی نے بھی نہیں دیکھا کہ کسی در خت نے چو ری کی ہو زنا کیا ہو کسی کو قتل کیا ہو یا وہ کا م کیے ہوں جن پر قرآن میں لعنت ہے جب درخت نے یہ کام کیے ہی نہیں تو قرآن میں در خت پر لعنت کیسے قرآن میں لعنت بر ے کاموں پر کی گئی ہے آپس میں جھگڑنے پر کی گئی ہے غرض جو بھی اللہ کے حکم کے خلاف کیا جا ئے گااس پر قرآن میں لعنت ہے نہ کہ درخت پر ہاں شجر کا ایک مطلب درخت بھی ہے میں نے جو آیات لکھی ہیں ان میں کس چیز کو برا بتا یا گیا ہے۔ قرآن میں اور بہت آیات ہیں جن میں اختلاف جھگڑے نا فرما نی کو بر ابتا یا گیا ہے اس لیے میں نہیں سمجھ پایا کہ آدمؑ سے کسی درخت کے کھانے کو منع کیا گیا تھا اور نہ ہی کوئی سمجھدار آدمی درخت مانے گا۔ ان سے جو کہا گیا تھا وہ یہ کہ اے آدمؑ تم آپس میں اختلاف تنازعہ جھگڑا نہ کر نا لیکن یہ مشیت ایزدی تھی سو شیطان نے ان کو یہی ور غلا یا کہ اے آدمؑ تم اور تمہا ری زو جہ یہ تنا ز عہ اختلاف کر لو بس یہی تمہا ری ہمیشگی کی زندگی کارازہے ۔ تم کو اس لیے اس شجر سے رو کا گیا ہے کہ کہیں تم ہمیشہ ایسے مزے میں ہی نہ رہو اس لیے اس شجر کی آزما ئش کر لو انھوں نے اس کی بات مان لی اور کسی بات میں تنا زعہ کیا اور اس تنازعہ میں ہی ان کی تر قی کاراز تھا۔ یعنی اب ان کو غور وفکر کرنے کا شعور آگیا ۔ جس کا انتظار اللہ کو تھا تب اللہ نے ان کو میدان عمل میں سر گرم کر دیا جہا ں انھو ں نے علم حاصل کیا اور اس تنا زعہ کو دیکھ کر ہی اللہ نے کہا تھا کہ تم ایک دوسر ے کے دشمن رہوگے کیون کہ تم تنا زعہ بھی کر تے ہو اور قتل بھی۔ ایک غلط روا یت یہ بھی ہمارے یہاں درج ہے کہ جب آدم ؑ جنت میں اداس رہتے تھے تو ان کی اداسی کو دور کر نے کے لیے اللہ نے ان کی بائیں پسلی سے حوا کو بنا یا جب کہ یہ عقیدہ بالکل ہی غلط ہے۔ ٍ ً
کیوں کہ سورۃنساء (۴)آیت۱ میں صاف ہے کہ آدم ؑ و حوا کو جنت میں ساتھ داخل کیا گیا، پھر یہ جنت میں پیدا ہونا کیسا؟اسی سورۃ کی آیت ۴ میں ہے کہ جس مٹی سے آدمؑ کو بنا یا اس سے ہی حواکو بنا یا اور سورۃ یسین آ یت۳۶میں لکھا ہے کہ ہر چیز جوڑے سے پیدا کی ۔دوسری غلط روایت یہ بھی ہے کہ شیطان نے حوا کو بہکا یا اور حوانے آدمؑ کو، اس کے بارے میں بھی سورۃ بقرۃ(۲)آیت۳۶ کے ساتھ دوسری آیات میں بھی یہی لکھا ہے کہ ان دونوں کو شیطان نے بہکا دیا ۔اس لیے یہ حوا والی بات بھی غلط ہے ۔ دونوں ہی دھوکا کھا گئے۔ تیسری غلط روایت یہ ہے کہ وہ درخت گندم کا تھا کو ئی لہسن کا بتا تا ہے کوئی انگور کا ، آدم وحوانے گندم کھا لیا اب غور طلب بات یہ ہے کہ کیا گندم ، لہسن اورانگورکے پودوں کو درخت کہہ سکتے ہیں ۔درخت تو تنے دار ہوتا ہے لیکن یہ درخت والی بات بھی غلط ہے ۔ اورجو میں نے قرآن کی آیات کے حوالے سے لکھا ہے ۔ جو آپ نے پڑھ لیا ہے ۔ ٹھیک وہ ہے، یعنی تنازعہ، جھگڑا، اختلاف جوکہ سورۃ نساء(۴)آیت۶۵سے صاف ظاہر ہو رہا ہے۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ اشیاء کے نام آدمؑ کو اللہ نے ہی بتا دئے تھے ۔ یہ بات بھی قابل اعتراض ہے ؟ کیوں کہ ایک استاذکے دو شاگرد،ہوں ایک شاگرد کو ایک سوال کا حل بتا دیا اور دوسرے کو نہ بتا یا اور امتحان میں دونوں سے وہی معلوم کر لیا تو یقیناوہی طالب عا لم کامیاب ہو جا ئے گا ۔جس کو حل بتا دیا جس کو نہ بتا یا وہ کامیاب نہ ہوگا۔ تو یہ عمل بھی ظلم اور جانبداری کا ہوا۔مگر اللہ ظالم نہیں ہے ، عادل ہے ۔ اس لئے خود اللہ نے آدمؑ کو براہ راست نام نہیں بتا ئے بلکہ جو آدمؑ کی سر شت میں تر قی کرنے کا عنصر رکھا تھا جس کو وہ جبلت کہا جاتاہے ۔اس سے کام لے کر اس زمانے میں جس کا ذکر سورۃ دہر میں ہے جنت سے منتقل ہونے کے بعد ان کے نام رکھے ان کی صفات وخواص کے مطابق جس کا ذکر دوسری جگہ لکھا ہے۔
جس کام کو انسان اللہ کے حکم کے مطا بق اس کے دئے ہو ئے علم سے کرتا ہے اس کو اللہ اپنی طرف منسوب کر لیتا ہے جیسے سورۃ فتح ۴۸ :۱۸ :۱۰ میں کہا ہے کہ اے محمد ؐیہ مومن درخت کے نیچے جو بیعت تیرے ہاتھ پر کر رہے تھے وہ میرے ہاتھ پر ہی کر رہے تھے یا کافروں کو قتل تم نے نہیں کیا میں نے قتل کیا یا تم نے نہیں پھینکا میں نے پھینکا یا شکاری جانوروں کو جو تم علم سکھاتے ہو وہ میرے بتائے ہوئے طریقے سے بتاتے ہو اس لئے آدم ؑ کے نام رکھنے کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔
اب تک آدمؑ کا ذکر غیر تر تیب طریقے سے لکھا گیا ہے اب میں اس کو ترتیب کے ساتھ لکھ رہاہوں۔ امید ہے کہ غوروفکر کیا جا ئے گا ۔ اللہ کو اس زمین پر ایک مخلوق ایسی آباد کرنی تھی جو جا نشینی کے طور پر آباد رہ کر اللہ کے حکم کے مطابق زندگی گزارے اورجواللہ کی بنائی ہر شے سے اسکی صفات کے مطابق کام لے اور یہ تب ہی ہو سکتا تھا جب اس مخلوق میں علم ہو ہنر ہو ان اشیاء پر قابو حاصل کر نے کی صلاحیت ہو اس ارادے کو اللہ نے فرشتوں پر ان الفاظ کے ساتھ ظاہر کیا کہ میں مٹی سے ایک بشر بنا نے والا ہوں جب اس کو علم سے سنوار دوں درست کردوں اور علم والا بنا دوں تو تم اس کے زیر فرمان مددگار ہم آہنگ ہو جانا۔
اس کے بعد اللہ نے آدمؑ کو اور حواکو ایک ہی جنس مٹی سے بنا یا جس کاذکر سورۃ نساء میں شروع میں ہی ہے اور چونکہ اللہ نے ہر چیز کو جوڑے سے بنایاجو سورۃ یسین آیت۳۶ میں کہا ہے اس لیے ان کو بھی ایک ساتھ بنا یا دونوں کو بنا کر کہا کہ اے آدم تم اور تمہاری زوجہ اس جنت میں پر فضاء جگہ میں رہو۔ وہاں پر ان کے کھانے پینے کا ہر سامان تھاجیسے ماں باپ اپنے بچے کی پر ورش کرتے ہیں اللہ نے آدمؑ پر صر ف ایک پا بندی لگا دی کہ اس شجر کے قریب نہ جانا یعنی آپس میں تنا زعہ،مکرو فریب نہ کرنا اور کہا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے اس سے بھی ہو شیار رہنا۔لیکن مشیت ایزدی کو کچھ اور منظور تھا یعنی آدم ؑ کو علم والا بنا نا تو جب تک آدمؑ خوب تند رست نہ ہو گئے اور اچھے برے کی جان کاری نہ ہونے لگی اس وقت تک اس آرام کی جگہ جنت میں رکھا جب بلوغ کا وقت آگیا ادھر شیطان بھی بہکا نے میں لگا تھا اور ایک بات یہ بھی قابل غورہے کہ اگر کسی بچے سے کسی کام کو کرنے سے منع کیا جا ئے تو وہ اس کو کرنے کی کوشس کرتا ہے اکثر بڑا بھی ایسا ہی کرتا ہے ۔
اس لیے آدمؑ کے دل میں بھی یہی بات گردش کر رہی تھی کہ اس کام کو کرنے سے ہی کیوں روکا گیا ہے ۔شیطان بھی برابر یقین دلا رہاتھا کہ اس شجر میں ہی تمہا ری ہمیشگی کی زندگی پو شیدہ ہے اس لیے اس کام کو کرو وقت آنے پر آدم ؑ اور حوانے آپس میں کسی بات پر تنا زعہ کر لیا اس تنازعہ کا جیسے ہی ملکر ذا ئقہ چکھا کہا نہیں جاتا کہ لڑائی کا مزہ چکھوتو کیا لڑائی کھا ئی جاتی ہے نہیں بلکہ اس لڑائی سے جو نقصان ہوتاہے اس کو ہی کہا جاتا ہے کہ لڑائی کا مزہ چکھو یا جسے عذاب کا مزہ چکھو ۔ بس یہی بات یہ ہے کہ جیسے ہی دونوں نے ایک ساتھ تنازعہ کیا یعنی مزہ چکھا تو ان کو پتہ چل گیا کہ ہم سے نافرمانی ہو گئی اور ان کے ستر کھل گئے۔ اندر کی پو شیدہ چیزیں ظاہر ہو گئیں اب تک ان کو پتہ نہیں تھا کہ ہم ننگے ہیں اس شجر کے چکھتے ہی وہ اپنے اوپر جنت کے پتے چپکا نے لگے اس وقت سے ہی آدمؑ کی زندگی کا وہ دور شروع ہو گیا جس کا اللہ کو انتظار تھا یعنی اب آدم ؑ کو آرام والی جگہ سے منتقل کر کے اس جگہ رکھا جا ئے جہاں یہ علم حاصل کرے تو اللہ نے ان کو منتقل کر دیا اور ایسی جگہ رکھا جہاں آدمؑ کو خود ہی اپنے کھانے پینے کا انتظام کرنا پڑا اس جگہ ہی آدمؑ نے ان اشیاء کا ان کے خواص کے مطا بق نام رکھا اور اپنے قابو میں کرتا رہا ان سے کام لیتا رہا اس زمانے میں ہی آدم ؑ اولاد والا ہو گیا اور ان کے دولڑکوں میں جھگڑاہوا جس کو فرشتوں نے دیکھا مگر اس وقت تک اولاد آدمؑ کسی مشر کانہ کام میں ملوث نہ ہوئی تھی اس لیے ہی وقت آنے پر فرشتوں نے صرف خونریزی اور فساد کا ذکر کیا شرک کا ذکر نہیں کیا ۔
اس طرح آدمؑ اپنی ترقی پذیر جبلت سے ترقی کرتا رہا جب علم والا ہو گیا تب اللہ نے اذ حرف کے ساتھ فر شتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں خلیفہ کی بحث میں پہلے کر چکا ہوں ۔ اللہ کے اس فرمان کو سن کر فر شتوں نے وہی الفاظ کہے کہ اللہ تو کس کو جا نشینی کے طور پر آباد کرنے والا ہے یہ تو فسادی ہے زیادہ دنوں تک باقی نہ رہے گی لڑ بھر کر ختم ہو جا ئے گئی یہ لڑتی ہے تیری تسبیح تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں تب ان کی اس خام خیالی کو ختم کرنے کے لیے کہا جو میں جا نتا ہوں تم نہیں جانتے اگر تمہا را خیال درست ہے تو ان اشیا ء کے نام بتا ؤ فر شتے ان کا نام نہیں جا نتے تھے ،انکار کیا۔ تب آدم ؑ سے کہا ۔چونکہ آدمؑ نے میدان عمل میں سر گرم رہ کر اللہ کے دئے ہوئے علم سے ان کے نام رکھ لیے تھے اور وہی رکھے جو لوح محفوظ میں تھے فوراً بتا دئے تب اللہ نے کہا اے فر شتو اب تمہارا کیا خیال ہے ؟ تب فر شتوں نے اپنی کم علمی اور آدم کی بر تری بز رگی تسلیم کی اللہ نے کہا کہ میری بات ٹھیک ہے تمہارا خیال غلط ہے تب اللہ نے فرشتوں سے کہا کہ اب یہ مخلوق زمین پر خلیفہ قائم مقامی کے طور پر آباد رہے گی اور یہ تم سے کام لے گی چونکہ میں نے سب اشیاء کو اس کے لیے ہی بنا یا ہے اب سے تم اس کے مدد گار بنو تم اس کے راستے میں روکاوٹ مت ہونا چونکہ کے میری مشیت بھی اس کے شامل حال ہے تم بھی اس کے ہم آہنگ ہو جاؤ یہ فر شتوں کا سجدہ ہے نہ کہ زمین پر عاجزی کے ساتھ ماتھاٹیک دینا جس کو سجدہ تعظیمی کہا گیا ہے یہ سجدہ تعظیمی غلط ہے۔لیکن اس حکم کوابلیس نے نہیں مانا۔ یہ اعتراض کرتے ہوئے کہ اللہ ! مجھے آپ نے آگ سے بنایا ہے اور اس انسان (بشر) کو مٹی سے بنایا ، اس لئے میں اس سے افضل ہوں ، اس لئے انسان میرے زیر فرمان ہو۔
یہ ہے حقیقت جو لکھی گئی ہے ۔غور کرنا ہمارا کام ہے ۔ اللہ مدد کرے ۔اس کے بعد حضرت ابراہیمؑ کاکچھ ذکر کیا جاتا ہے۔